Daily Roshni News

ؒتعلیمات غوث اعظم

تعلیمات غوث اعظمؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تعلیمات غوث اعظم)پانچویں صدی ہجری اپنی انتہا پر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ایک لمبا عرصہ بیت چکا تھا، دنیا پھر جہالت اور گمراہی کی اندھیروں میں سرگرداں اور حیراں وپریشان تھی، امت مسلمہ نت نئے فتنوں سے دور چار تھی، اہل ایمان خود دین بیزار ، اخروی زندگی سے بے بہرہ ، دنیوی لذتوں اور چاہتوں میں منہمک ہوچکے تھے ، ایسے میں اللہ عزوجل نے سرزمین بغداد سے ہدایت کے سرچشمہ کو جاری کردیا، جس سے بے شمار مخلوق فیضیات ہوئی، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی پیدائش باسعادت کا یہ موقع تھا، بے شمار خلقت ان کے دست حق پر تائب ہوئی، بہرور اسلام ہوئی ، اسلام کی حقیقی تصویر سے آشنا ہوئی ۔

آپ کا نام عبدالقادر ،کنیت ابو محمد ،لقب محی الدین ،پیدائش مقام جیلان ہے آپ کی ولادت 471 ھ ؁ مطابق1078؁ء کو ہوئی جن کا سلسلۂ نسب والد صاحب کی طرف سے سیدنا حضرت امام حسنؓ تک اور والدۂ محترمہ کی طرف سے سیدنا امام حسین ؓ تک پہنچتا ہے ۔آپ کی ولادت کے تھوڑی ہی مدت کے بعد والد محترم دنیائے سے رخصت ہوگئے، آپ کی پرورش وپرداخت آپ کے نانا محترم سید عبد اللہ صومعی نے کی، یہی وجہ تھی کو بسا اوقات آپ “ابن الصومعی” کے نام سے مخاطب کیاجاتا۔

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ حاضر دماغ، شرعی اصولوں کی تکریم کرنے والے، شریعت و دین کی دعوت دینے والے اور شرعی احکامات کی مخالفت سے نفرت کرنے والے تھے۔ آپ نے اپنی سیرت و کردار کے ذریعے لوگوں کو شریعت، عبادت، مجاہدہ کے ذریعے عمل کی طرف راغب فرمایا۔

آپ کے بارے میں عمر بن مسعود بزار نے ذکر کیا ہے کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ حاضر دماغ، شرعی اصولوں کی تکریم کرنے والے، شریعت و دین کی دعوت دینے والے اور شرعی احکامات کی مخالفت سے نفرت کرنے والے تھے اپنی سیرت و کردار کے ذریعے لوگوں کو شریعت، عبادت، مجاہدہ کے ذریعے عمل کی طرف راغب فرمایا۔ میری آنکھوں نےعبدالقادر جیلانی سے بڑھ کر علوم حقائق کا کسی کو غواص اور عالم نہیں دیکھا۔ آپ نے ہر اس شخص کا رد کیا جس نے مذہب سلف کی مخالفت کی کیونکہ آپ کتاب، سنت اور سلف صالحین کے طریقے کو سختی کے ساتھ تھامنے والے تھے‘‘۔

علوم شریعت کے زیور سے آراستہ ہونے کے بعد حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ لطائف باطنیہ تک پہنچے تو آپ نے تمام مخلوق کو چھوڑ کر حق کی طرف ہجرت کی۔ آپ نے اپنے خالق حقیقی کی طرف سفر کے لئے حق و معرفت پر مبنی زاد سفر تیار کیا۔ آپ پر کائنات کے چھپے راز آشکار ہوگئے۔ آپ کی مجالس اس قدر بابرکت ہوتیں کہ تجلیات الہٰیہ کے ظہو رکا اکثر و بیشتر نظارہ ہوتا۔ آپ اپنے خطبات کو قرآنی نص کی روشنی میں بیان کرتے اور مخلوق کو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے۔

آپ نے سلسلہ قادریہ کی بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ طریقت دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا ہے اور سب سے بڑھ کر مریدوں کی تعداد اسی سلسلے کی ہے۔ مقام و مرتبہ اور شہرت کے حوالے سے اس سلسلے کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز نے خدمت انسانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا رکھا اور معاشرہ کے ہر فرد کو دنیوی، اخروی، مالی و مادی، روحانی و باطنی الغرض ہر قسم کے نقصان سے بچانے کی ہمیشہ کاوش کی۔ آپ کی تعلیمات ہمیشہ خیر خواہی پر مبنی تھیں۔ آپ نے ہمیشہ ہر سطح پر معاشرہ کو مضبوط کرنے والے امور کی تعلیمات دیں اور اسے کمزور کرنے والے اسباب کا صفایا کیا۔

حضور غوث اعظم قدس سرہ العزیز نے پڑوسیوں اور ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور دوسری کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنے کی تعلیم دی۔ آپ اپنی کتاب الفتح الربانی میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’اے لوگو! افسوس ہے کہ تم سیر ہوکر کھاتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے ہیں، پھر تم دعویٰ کرتے ہو کہ ہم مومن ہیں۔ تمہارا ایمان درست نہیں ہے‘‘۔

گویا آپ نے کامل اور درست ایمان کی علامت بیان فرمائی کہ معاشرہ کے غریب، فقراء اور محتاج لوگوں کا خیال رکھنا ایمان ہے۔ دوسروں کی خاطر مال اور اپنا وقت خرچ کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔

آپ اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ اے بیٹے میں تمہیں یہ وصیت بھی کرتا ہوں کہ

اغنیاء کے ساتھ تم بھی بطور ایک غنی اور پروقار بن کر رہنا جبکہ فقراء کے ساتھ عاجزی اور تواضع سے رہنا

ہر عمل میں اخلاص کو مضبوطی سے تھامنا اور وہ یہ ہے کہ ریاکاری کو بھلا دینا۔ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رویت اور اس کی رضا کے لئے عمل کرنا۔

اسباب کے حوالے سے کبھی خدا تعالیٰ کی ذات میں شک و شبہ نہ کرنا بلکہ ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم رہو۔

اپنی حاجتوں کو کسی شخص کے سامنے نہ رکھنا، چاہے اس کے اور تمہارے بیچ محبت، مودت اور قرابت دوستی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔

فقراء کی خدمت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ فقراء کے معاملہ میں تین چیزوں کی پابندی لازمی ہے: تواضع انکساری، حسن آداب، سخاوت نفس۔

اپنے نفس کی ریاضت میں دوام پیدا کر حتی کہ وہ زندہ ہوجائے۔

مخلوق      میں سے خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے زیادہ      عمدہ اخلاق کا مالک ہے۔

تمام      اعمال میں سب سے زیادہ افضل عمل ایسی چیز میں التفات سے بچنا ہے جو خدا      تعالیٰ کو اذیت دے یعنی اس کی ناراضگی کا سبب بنے۔

جب      فقراء کو خواہشات آلیں تو تم ان سے کنارہ کشی کرنا کیونکہ حقیقی فقیر خدا      تعالیٰ کی ذات کے سواء ہر چیز سے مستغنی ہوتا ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زبان کی تاثیر سے مردہ دل زندہ ہوتے تو اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبہ پر مرتب ہونا شروع ہوئے۔ ایک عام آدمی سے لے کر امرائ، سلاطین اور حاکمانِ وقت تک آپ کی مجلسِ وعظ میں حاضر ہوتے۔ یہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان تھا کہ آپ اپنے مواعظِ حسنہ میں ہر طبقۂ زندگی کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں نصیحت کے جام پلاتے، جس کی تاثیر سے وہ اپنے احوال کی اصلاح کرتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی اس طرح سے گزارتے کہ وہ دیگر افرادِ معاشرہ کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوتے۔

آج جس دور میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، اسے علمی ترقی کا دور کہا جاتا ہے۔ سائنسی انکشافات، برقی ذرائع علم (انفارمیشن ٹیکنالوجی) نے قرب و بعد کے فاصلے سمیٹ دیئے ہیں۔ ڈگریوں کی صورت کاغذ کے پرزے اٹھائے ہر کوئی خواندگی کے گیت آلاپ رہا ہے مگر اس کے باوجود معاشرہ روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کا سبب علم و عمل کی دوئی ہے۔ آج علم برائے عمل حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ علم برائے معاش حاصل کیا جاتا ہے۔ علم و عمل کی اس دوئی نے تہذیب و اخلاق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے حالانکہ دونوں کے اجتماع سے انسان اور معاشرے میں تہذیب پیدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے بے عمل عالم کو ایسے گدھے سے تشبیہہ دی ہے جس پر کتابیں لاد دی جائیں لیکن اس کے اخلاق و عمل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’جس شخص کا علم زیادہ ہو اسے چاہئے کہ خوفِ خدا اور عبادت بھی زیادہ کرے۔ علم کے مدعی! خوفِ خدا سے تیرا رونا کہاں ہے۔۔۔؟ تیرا ڈر اور وہشت کہاں ہے۔۔۔؟ گناہوں کا اقرار کہاں۔۔۔؟ رات اور دن عبادت میں ایک کردینا کہاں۔۔۔؟ نفس کو باادب بنانا اور الحب للہ والبغض للہ کہاں۔۔۔؟ تمہاری ہمت جبہ و دستار، کھانا، نکاح، دکان، خلقت کی محفل اور ان کا انس ہے، اپنی ان تمام چیزوں سے خود کو الگ کر۔ یہ چیزیں اگر تمہارے نصیب میں ہیں تو اپنے وقت پر مل جائیں گی اور تمہارا دل انتظار کی کوفت سے آرام پائے گا‘‘۔

(فتح الربانی، صفحه: 82)

آج کے معاشرہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ الوہی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے بالعموم شکوہ کناں رہتے ہیں، جس کے باعث لوگ بہت سی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں:

’’خالق کا شکوہ مخلوق سے نہ کر بلکہ خالق ہی سے کر، اسی نے سب اندازے لگائے ہیں، دوسرے نے نہیں‘‘۔

(فتح الربانی، صفحه: 839)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

’’غیر اللہ کے پاس گلہ اور شکایت نہ کرو کیونکہ اس سے تم پر اور بلا بڑھے گی بلکہ خاموش اور ساکن اور گم ہو رہو۔ اس کے سامنے ثابت قدم رہو اور دیکھو کہ وہ تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان کیا کرتا ہے اور اس کے تصرفات پر اظہارِ خوشی کرو۔ اگر تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آئو گے تو ضرور وحشت کو انسیت سے اور رنج و تنہائی کو خوشی سے بدل دے گا‘‘۔

(فتح الربانی، صفحه: 66)

تعلیماتِ غوثیہ میں اخلاص کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اخلاص کے بغیر کوئی عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی اصلاح کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہر فرد جو بھی نیکی کا عمل کرے وہ صرف اور صرف اخلاص اور للہیت سے اللہ کی خوشنودی کے لیے سرانجام دے۔

غوث اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں دہشت گردی و انتہا پسندی کی شدید مذمت کی ہے۔ حضور غوث الاعظم سے عقیدت و محبت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد آپس میں اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح زندگی بسر کریں کہ ہر طرف ایثار و قربانی کے پھول کھلتے نظر آئیں اور محبت کی مہکار معاشرے کے ہر فرد کے مشامِ جاں کو معطر کررہی ہو۔

Loading