Daily Roshni News

آسٹریلیا کے جزیرے تسمانیہ کے صدر مقام ہوبارٹ میں اُترنے والا تھا۔

آسٹریلیا کے جزیرے تسمانیہ کے صدر مقام ہوبارٹ میں اُترنے والا تھا۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بنفشی آسمان پر سورج ڈھل رہا تھا۔ سنہری کرنیں سمندر کے پانیوں پر دور تک نقش بناتے پھیلی تھیں۔ یہ نقش بادلوں سے چھَن کر نکلتی روشنی کے سبب تھے۔ میں نے طیارے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو وہاں نیچے پہاڑوں کے تھکے سائے رینگتے دکھائی دئیے۔ اک جانب کھُلا سمندر تھا دوسری جانب ڈھلتی شام نے سرسبز کھیتوں، جابجا چھوٹے چھوٹے گھروندوں کو اپنی بانہوں میں لپیٹ رکھا تھا۔ سورج نے بادلوں کو پاٹ کر اپنا رُخ دکھایا تو ساری زمین روشنی میں نہا گئی۔ طیارے نے رُخ بدلا تو پہاڑوں کا قد کاٹھ اور ان کے سائے بستیوں پر حاوی ہوتے گئے۔ ائیرہوسٹس کے بیان کے مطابق طیارہ آسٹریلیا کے جزیرے تسمانیہ کے صدر مقام ہوبارٹ میں اُترنے والا تھا۔

طیارے سے رخصت ہو کر سامان لے کر نکلتے رات کے سائے پھیلنے لگے تھے۔ ہوبارٹ شہر کی گلیاں، چوراہے اور چوبارے برقی قمقموں سے منور ہو چکے تھے۔ سردی کی ایک لہر آئی تو میں نے جیکٹ کی زپ اوپر تک چڑھا لی۔ ٹیکسی نے مجھے شہر کے مرکز میں واقع میرے ہوٹل میں اتار دیا۔ ریسپشن پر بزرگ عورت بیٹھی تھی۔ اس نے پاسپورٹ سکین کیا۔ پھر ریسپشن سے باہر آئی۔ چابی ہوا میں لہراتے بولی” ویلکم ٹو ہوبارٹ سید”۔ گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی۔

بستر پر کروٹیں بدلتے نیند ٹوٹتی رہی۔ میں آسٹریلیا کے شہر بہ شہر لمبے سفروں سے نڈھال ہوئے آ رہا تھا۔ خواب میں بیتی بستیاں آتیں رہیں۔ آنکھ کھُلتی رہی۔ صبح چار بجے بیزاری مجھ پر حاوی ہونے لگی۔ میں نے تھکے ہوئے بدن کو سمیٹا۔ کمرے کی بالکونی میں آ کر سگریٹ سلگایا۔ سامنے ہوبارٹ شہر کا مرکزی پُل تھا۔ شہر خوابیدہ تھا۔ تسمانیہ کی آبادی انتہائی کم ہے۔ جو بھی ہے وہ ہوبارٹ جیسے بڑے شہر میں وجود رکھتی ہے۔ جلد صبح صادق کی پو پھوٹنے والی تھی۔ نیند ٹوٹ چکی تھی۔ سامنے دور ہوبارٹ کی بڑی چوٹی ماؤنٹ ولنگٹن نظر آ رہی تھی۔ میں نے کیمرا بیگ اُٹھایا۔

ریسپشن پر بوڑھی عورت اونگھ رہی تھی۔ یکایک وہ میری آہٹ سے چونکی۔

“تم اس وقت کہاں جا رہے ہو ؟ کیا تم کو کسی مدد کی ضرورت ہے ؟”۔

نہیں، شکریہ۔ میں ٹیکسی لے لوں گا۔ مجھے ماؤنٹ ولنگٹن ویو پوائنٹ پر جانا ہے۔ وہاں سے ہوبارٹ شہر کی کچھ تصاویر لینا ہیں۔

“اوہ۔ مگر ابھی تو رات ہے۔ ویو پوائنٹ پر کوئی نہیں ہو گا۔ بہت سردی ہے۔ تم صبح جاؤ گے تو اچھا رہے گا۔”

نہیں، مجھے طلوع آفتاب کے وقت تصویر لینا ہے۔ مجھے ابھی جانا ہو گا۔

“اچھا۔ مگر تم اکیلے ہو ؟ دھیان سے جانا۔”

کیا کوئی خطرے کی بات ہے ؟۔

“اوہ، نہیں نہیں، بس یونہی کہہ رہی تھی۔ ٹیک کئیر۔”

ٹیکسی والا گاڑی میں اونگھ رہا تھا۔ ہوٹل کے باہر مرکزی شاہراہ کے ایک کونے پر کھڑا مل گیا۔ میں نے کھڑکی پر دستک دی۔ وہ چونک کر بیدار ہوا۔

ماؤنٹ ولنگٹن ویو پوائنٹ تک چلو گے ؟ پیسے ؟

“ہاں، بیٹھو۔ پیسے میٹر کے مطابق ہوں گے۔”

گاڑی چل پڑی۔ ہوبارٹ شہر اونگھ رہا تھا۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ سردی کی شدت کافی بڑھ چکی تھی۔ گاڑی میں ہیٹر آن تھا۔ پھر ٹیکسی ایک سنسان بل کھاتی سڑک پر چڑھائیاں چڑھتی گئی۔ ہم زمین سے اوپر اٹھتے گئے۔ پھر دھند میں گم ہو گئے۔

ہر جانب دھند پھیلی تھی۔ حد نگاہ دو چار میٹر تھی۔ میں سوچ رہا تھا اگر ماؤنٹ ولنگٹن کے ویو پوائنٹ سے دھند کے سوا کچھ نظر نہ آیا تو کیا ہو گا۔ سارا سفر رائیگاں چلا جائے گا۔

“تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ اور اس وقت ویو پوائنٹ پر جا کر کیا کرو گے ؟”۔ ٹیکسی والا بلآخر ضبط توڑتے ہوئے بول پڑا۔

دراصل میں ملبورن سے آ رہا ہوں۔ فوٹوگرافر ہوں۔ سوچا تھا طلوع آفتاب کے وقت ہائی پوائنٹ سے ہوبارٹ شہر کی کچھ تصاویر لے لوں گا۔ مگر دھند دیکھ کر لگ رہا ہے شاید تصاویر نہ آ سکیں۔ یا شاید بہت ڈرامیٹک تصاویر آ جائیں۔

“گریٹ۔”

گاڑی دھند میں تن تنہا رینگتی رہی۔ ڈرائیور پھر چپ ہو چکا تھا۔ یہ پچاس پچپن سالہ آسٹریلوی مرد تھا۔ اس کی گہری چپ ماحول کو پراسرار بنا رہی تھی۔ مجھے یہ خدو خال سے ہالی وڈ کی ڈراؤنی فلم “رانگ ٹرن” کا ایک کردار لگنے لگا تھا۔ جگہ سنسان تھی جسے دھند نے ڈراؤنا بنا دیا تھا۔ ایک پتلی سی سڑک مسلسل بل کھاتے چلی جا رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور کی خاموشی کو توڑنا چاہا۔

آپ ہوبارٹ شہر کے رہنے والے ہو ؟ ٹیکسی چلاتے ہو یا کوئی اور کام بھی کرتے ہو ؟

“لڑکے! میں ویسٹ آسٹریلیا سے ہوں۔ تم گئے ہو کبھی ویسٹرن آسٹریلیا ؟”۔ اس نے سٹئیرنگ پر جھکے مخصوص ویسٹرن لہجے میں جواب دیا

اوہ ہاں، میں پرتھ سے ہوتا ہوا ہی آ رہا ہوں۔ ویسٹرن آسٹریلیا خوبصورت ہے، جنگلی ہے، اور خشک ہے۔

“ہممم، لڑکے، ویسٹ جنگلی ہے۔ بلکل جنگلی ہے۔وائلڈ وائلڈ ویسٹ، ہاہاہاہاہاہاہا”۔ اس کی ہنسی گونجی تو میں مزید چوکنا ہو گیا۔ مجھے لگنے لگا کہ اس بزرگ کو خاموش ہی رہنے دیا جائے۔ شاید اس نے پی رکھی ہو۔ اسی واسطے یہ گاڑی میں اونگھ رہا تھا۔ مجھے اس فلمی کردار سے عجیب وائبز آنے لگیں۔ شاید ماحول کا اثر تھا۔

ماؤنٹ ولنگٹن کا ٹاپ پوائنٹ جو ویو پوائنٹ تھا مکمل دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا۔ حد نگاہ صفر، ویو پوائنٹ پر ایک سٹریٹ لائٹ جیسا پول لگا تھا جس پر جلتا بڑا سا بلب دھند میں لپٹے ہلکی زرد روشنی بکھیر رہا تھا۔ گہری رات تھی۔ اوس سے میرا چہرہ بھیگنے لگا۔ میں اس وقت یہ فیصلہ کرنا چاہ رہا تھا کہ آیا یہاں تن تنہا رکنا اور سورج ابھرنے کا انتظار کرنا ٹھیک رہے گا یا پھر اسی فلمی ڈراؤنے کردار کے ساتھ واپس اپنے ہوٹل چلا جاؤں۔

“ بوائے! موسم خطرناک ہے۔ شدید سردی ہے۔ تم رکنا چاہو گے ؟”۔ اس سے قبل میں کوئی فیصلہ لیتا وہ خود ہی بول پڑا۔

ہاں۔ تم جا سکتے ہو۔ کتنا بِل ہوا ؟۔ (نجانے کیوں فوراً ہی میرے منہ سے از خود یہ جملہ نکل آیا)۔

“آل رائٹ۔ باون ڈالرز”۔

میں نے اسے پیسے دئیے۔ اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔ میں نے بھی اسی پہلی بار بغور دیکھا۔ سر اور ہلکی داڑھی کے بال سفید، آنکھیں بڑی بڑی نیلی پُتلیوں والی، ماتھے پر جھڑیاں، رنگت سرخی مائل، رخسار پر بڑا سا کٹ کا نشان۔ اس کے چہرے نے میرے وہم کو تقویت دے دی۔ میں کاندھے پر کیمرا بیگ اٹھائے لائٹ پول کی جانب تیزی سے چلنے لگا۔

“ بوائے، لُک، میں گاڑی میں کچھ دیر سونے لگا ہوں۔ اس وقت واپس جانا ٹھیک نہیں۔ شارپ موڑ ہیں اور اُترائی ہے۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ تم کو سردی لگی تو گاڑی میں آ جانا۔ مجھے نہیں پتہ تم اس اندھیرے اور سردی میں باہر کیا کرنے لگے ہو۔ اوکے ؟”

اوکے۔

میرے ذہن میں چلنے لگا کہ یہ یہاں کیوں رک رہا ہے۔ یہ ٹیکسی والا ہے ان کا تو معمول ہے ڈرائیو کرنا۔ شاید اس نے پی رکھی ہے۔ شاید یہ واقعی تھکا ہوا ہے۔ شاید اس کی نیند پوری نہیں۔ یا شاید اترائی اس دھند میں واقعی خطرناک ہو اس واسطے یہ سورج ابھرنے تک رکنا چاہتا ہے۔ یا شاید اس کا کوئی اور پلان ہو !۔ مجھے فوٹوگرافی بھول گئی۔ باہر اندھیرا ، دھند اور سخت سردی تھی جو مزید بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

میں اس واحد لائٹ پول سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔اوس جیکٹ سے قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی۔صبح صادق کی پو پھٹنے والی تھی۔میرا چہرہ ٹیکسی کی جانب تھا۔ نجانے مجھے کیوں لگ رہا تھا کہ ڈرائیور گاڑی سے نکل کر میری جانب آئے گا۔ اور جب وہ آئے تو مجھے یہاں سے بھاگنا ہو گا۔ ٹرائی پوڈ میرا واحد ہتھیار تھا۔ میں اس کو گود میں رکھے بیٹھا رہا اور پھر سردی نے انت مچا دی۔ ہوا چلنے لگی۔ دن کی ہلکی روشنی بکھرنے لگی۔ سورج طلوع ہونے میں ابھی چالیس منٹ باقی تھے۔ ہوا تیز ہوتی گئی۔

میں سردی کے سامنے ہار ماننا چاہتا تھا مگر مجھ میں گاڑی تک جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہاں بیٹھے بیس تیس منٹ گزر چکے تھے۔اچانک گاڑی سٹارٹ ہوئی۔ ہیڈ لائٹس آن ہوئیں اور ہائی بیم کے ڈپر چلے۔

“بوائے، سردی ہے تو گاڑی میں آ جاؤ۔” وہ گاڑی کا شیشہ کھول سے چِلایا۔

اس وقت میں خودبخود ہی اُٹھا۔ میرا دماغ منجمد ہو رہا تھا۔ جیکٹ اوس سے بھیگ چکی تھی۔ میں گاڑی کی سمت چلنے لگا۔ جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر بیٹھا یوں لگا جیسے زندگی لوٹ آئی ہو۔ گاڑی کا درجہ حرارت زیادہ تھا۔ میں نے بیٹھتے ہی اس کا شکریہ ادا کیا۔

“بوائے، میں نے تمہارے جیسا مینٹل پیس نہیں دیکھا کبھی۔تم تصویر لینے کو یہاں اس سردی و جنگل میں آ گئے ہو۔ کیا یہ تمہارا پروفیشن ہے ؟ کیا تم اس سے پیسے کماتے ہو ؟”۔ اس نے مڑ کر پیچھے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

نہیں۔ بس شوق ہے۔ مگر کبھی کبھی شوق غلطی سرزد کروا دیتا ہے۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ماؤنٹ ولنگٹن کی ٹاپ پر شدید سردی اور دھند ہو گی۔

“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا، تم گڈ بوائے ہو۔”

قہقہ اس کا لمبا ہوتا گیا۔ اور پھر گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ منٹس بعد اس کے خراٹے گونجنے لگے۔ گاڑی میں مجھ پر بھی غنودگی طاری ہونے لگی۔ نجانے کب آنکھ لگی اور کتنی دیر بعد کھُلی۔ باہر روشنی پھیل چکی تھی۔ ہوا نے دھند کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اسے اڑا لے جا رہی تھی۔ میں چونک کر اُٹھا۔ گاڑی سے باہر نکلا۔ کیمرا بیگ اٹھایا۔ ڈرائیور کی آنکھ کھُلی

“ او ہاں، اب موسم اچھا ہو گیا ہے۔ تم جاؤ۔ واپس آؤ تو پھر تم کو ہوٹل چھوڑ دوں گا۔”

میں اس کا شکریہ ادا کر کے نکل گیا۔ نجانے کہاں کہاں پیدل نکل گیا۔ میرے سامنے منظر کھُلنے لگا تھا۔ ہوبارٹ شہر کی بتیاں جگمگا رہی تھیں۔ آسمان زرد ہوا چاہتا تھا۔ سنہری کرنیں ہوبارٹ کے پانیوں میں گھُلنا چاہتی تھیں۔ پھر ہر لمحہ منظر بدلتا گیا۔ سورج اوپر آتا گیا۔ شہر تاریکی سے نکل چلا تھا۔

واپس ہوتے صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ سورج کی کرنیں تمازت بکھیر رہی تھیں۔ ٹیکسی واپس ہونے لگی۔

“ اوہ بوائے، تم کو جو چاہئیے تھا وہ مل گیا ؟ مقصد پورا ہو گیا ؟”

ہاں۔ بالکل ہو گیا۔

“تسمانیہ بیوٹی ہے بوائے، بیوٹی۔ “

ہاں۔ بالکل

“ ایک بار جو تسمانیہ دیکھ لے وہ اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔”

اچھا۔ میں تو ابھی ہوبارٹ پہنچا ہوں۔ آج ایک دوست سے گاڑی لوں گا جو میرے ملک پاکستان کا ہے اور اس نے مجھے اپنی گاڑی ٹور کے لیے دینا ہے۔ تسمانیہ اگلے سات دن گھوموں گا۔ مگر مجھے یقین ہے آپ جو کہہ رہے ویسا ہی ہو گا۔

“ہاں، تم ضرور گھومو۔ سفر مبارک ہو۔”

وہ اب ڈراؤنا نہیں لگ رہا تھا۔ شاید سورج نے سب اُجال دیا تھا۔ روشنی میں کردار بدل جاتے ہیں۔ عیاں ہو جاتے ہیں۔ سب صاف نظر آنے لگتا ہے۔ رات اور دھند تو واہمے بُنتے ہیں۔ خدشے اُبھارتے ہیں۔ بے یقینی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ روشنی ان سب کو بھسم کر دیتی ہے۔ہوٹل کے آتے آتے پھر وہ چپ رہا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے پر اتر کر اسے بِل ادا کیا۔ اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ چلتے چلتے بولا

“تسمانیہ سے خوبصورت کچھ نہیں۔ اگر مرنا ہو تو انسان یہاں مرے۔ یہاں اس کی قبر بنے۔ اس سے خوبصورت جگہ پر قبر ہو ہی نہیں سکتی۔ میں ویسٹ چھوڑ کر تسمانیہ آ گیا اور پھر پندرہ سال سے یہیں ہوں۔ یہیں مرنا چاہتا ہوں۔”

یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے اس کو بیسٹ وشز کے ساتھ لمبی عمر کی دعا دی۔ وہ چلا گیا۔ ریسپشن پر وہی عورت اب چاک و چوبند بیٹھی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا۔

“تم آ گئے۔ ناشتہ کرنا چاہو گے ؟ ۔ سب ٹھیک رہا ؟۔ “

ہاں، سب ٹھیک رہا۔

“تمہیں وہاں اکیلے ڈر تو نہیں لگا ؟”

ڈر کیسا ؟ نہیں تو ۔۔ بالکل نہیں !!!

اس دوپہر  میں نے ہوبارٹ کو چھوڑ دیا۔ اگلے سات دن میں تسمانیہ نامی جزیرے میں گم ہو گیا۔ نیشنل پارکس آئے، جنگلات آئے، سرسبز کھیت آئے، ہرے کچور مناظر سے آنکھیں شاد ہوتیں رہیں، ساحل ساحل رنگ بکھرے، ہنستے مسکراتے لوگ ملے اور جدا ہوئے۔ تسمانیہ ایک رنگین پینٹنگ تھا اور میں اس پینٹنگ کا حصہ بن چلا تھا۔ ایسے دلکش مناظر ، اس قدر خوبصورتی اور ایسا بے مثال ساحلی حُسن۔ فبائی الا ربکما تکذبان۔

مال مویشیوں سے بھرے کھیت تھے۔ دور دور تک سبز پہاڑی چراہ گاہیں تھیں۔ سمندر ساتھ ساتھ چلتا تھا اور پل پل رنگ بدلتا تھا۔آنکھ حیرت میں ڈوبتی رہی تو کیمرا شٹر بھی چلتا رہا۔قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، قصبہ قصبہ مسافر بھٹکا۔ بنا کسی پلان کے۔ بنا کسی طے شدہ پروگرام کے۔ میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ ان بستیوں میں، ان ساحلوں پر، ان گھروں میں جب شام اُترتی ہے تو کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ ان گھنے جنگلوں میں رات پھیلنے سے قبل ہی پھیل جاتی ہے۔ماؤنٹ کریڈل جھیل پر برف کے گالے ہولے ہولے اترتے ہیں اور کسی جادوگر کی مانند جھیل کے نیلگوں پانیوں کو دیکھتے ہی دیکھتے سفیدی میں ڈھال دیتے ہیں۔ سمندری پرندوں کی قطار در قطار پروازیں کیونکر مبہوت کئیے جاتی ہیں۔

تسمانیہ بابِ طلسم ہے۔ کھُلتا ہے تو انگشتِ بہ دندان چھوڑ جاتا ہے۔ میں سات دن بعد اس طلسم سے نکلا۔ اک بار پھر ہوبارٹ شہر کا ائیرپورٹ تھا۔ واپس ملبورن کی جانب سفر تھا۔ ائیرلائن کاؤنٹر سے بورڈنگ پاس لیتے میں نے اس لڑکی کو عرض کی کہ مجھے کھڑکی والی سیٹ دے دے۔ اس نے میری جانب دیکھا۔ بورڈنگ پاس مجھے تھماتے ہوئے مجھے سیاح جان کر مسکراتے ہوئے بولی “آپ کو تسمانیہ کیسا لگا ؟”۔غیر ارادی طور پر میرے ذہن میں اس ٹیکسی ڈرائیور کے جملے گونجنے لگے جس کا نام تک میں نے نہیں پوچھا تھا مگر جواب مکمل طور پر ارادی دیا تھا۔

“تسمانیہ سے خوبصورت کچھ نہیں۔ اگر مرنا ہو تو انسان یہاں مرے۔ یہاں اس کی قبر بنے۔ اس سے خوبصورت جگہ پر قبر ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر میری مرضی پوچھی جائے تو میں یہیں مرنا چاہتا ہوں۔”

طیارے نے اڑان بھری۔ میں نے کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ اک اور شام ڈھل رہی تھی۔ ماؤنٹ ولنگٹن کی چوٹی عین سامنے چمک رہی تھی۔ اس پہاڑ پر چڑھتی بل کھاتی سڑک صاف نظر آ رہی تھی جو اب ڈھلتے سورج کی سنہری کرنوں میں چمک رہی تھی۔پھر طیارے نے رخ بدلا۔ ماؤنٹ ولنگٹن کی چوٹی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ میں نے آنکھیں بند کر کے سیٹ سے ٹیک لگا لی۔ذہن میں الوداعی جملے گونج رہے تھے۔

“گڈ بائے ٹیکسی ڈرائیور۔تسمانیہ ناقابل یقین حد تک خوبصورت ہے۔ اگر مجھ سے مرضی پوچھی جائے تو میں بھی تمہاری طرح یہیں مرنا پسند کروں گا۔”

ملبورن چکاچوند شہر ہے۔ لینڈنگ سے قبل اس شہر کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کرنے لگتیں ہیں۔ ملبورن کا سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ میرے نیچے تھا۔ ائیرپورٹ کی گہما گہمی سے نکلنے تک رات پھیل چکی تھی۔ باہر میرا دوست معاذ بن محمود میری آمد کا منتظر تھا۔ گاڑی کی سمت اس کے گھر کی جانب تھی۔ معاذ زندہ دل انسان ہے۔ زندگی سے بھرپور ہنستا مسکراتا، چہکتا۔ ملبورن میں امیگریشن لے کر بال بچوں سمیت مکین ہے۔ زندگی کو اپنے رنگ سے دیکھتا ہے۔ پرکھتا ہے۔ لکھتا ہے۔ کبھی لکھتے لکھتے تحریر میں قہقہے بکھیر دیتا ہے اور کبھی اس کی تحریر بجھتے چراغ کا دھواں بن کر ہوا میں دور تک اداسی چھوڑ جاتی ہے۔ مجھے چپ چاپ کھڑکی سے باہر دیکھتا دیکھ کر بولا

“تسمانیہ اچھا نہیں لگا شاہ جی یا وہاں کسی گوری گرل فرینڈ سے بچھڑ کر آ رہے ہو؟ اتنی اداسی اور چُپ۔ خیر ہے شاہ جی ؟”

ہاں۔ ویسے ہی بس۔ تسمانیہ تو بہت پیارا ہے۔ میں کسی سفر سے جب لوٹتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں۔ مجھے وہاں کے لوگ، سفر میں بنتے بچھڑتے دوست، مناظر اور اجنبیوں سمیت سب یاد آتا رہتا ہے۔ میرے دھیان میں وہ سب چلتا رہتا ہے۔ جیسے میں یہاں سے لوٹ جاؤں گا تو تب تم بھی ایسے ہی یاد آؤ گے اور میں یوں ہی چپ چاپ اور اداس ہوں گا۔ اور کوئی وجہ نہیں۔

اس نے یہ سن کر گاڑی چلاتے اپنی دُھن و مستی میں کہا” ہیوی بوائے، ہیوی۔ اس کے بعد تو مجھے بئیر کی طلب ہونے لگی ہے۔ پب چلیں شاہ جی ؟”

نہیں تم سیدھا گھر چلو۔ اور تم ٹیکسی والے کے بعد دوسرے بندے ہو جس نے مجھے “بوائے” کہا ہے۔

“نہیں نہیں شاہ جی۔ میری ایک آسٹریلین دوست رچی ہے۔ وہ بھی لکھتی ہے اور اس کا مزاج بھی آپ جیسا ہی لگتا ہے۔ سفر کی شوقین ہے۔ وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ تم نے اس بوائے سے تو ملوایا ہی نہیں جو پاکستان سے آیا ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی وہ تسمانیہ گیا ہے۔ واپس ملبورن آتا ہے تو بوائے سے ملتے ہیں۔”

اچھا ؟ رچی کی عمر کیا ہے ویسے ؟ اور وہ سنگل ہے یا اس نے کتا پالا ہوا ہے ؟

“کتا تو ہر کوئی پالتا ہے یہاں۔ سنگل ہے شاہ جی۔”

اوکے۔ تو پھر ہم کب مل رہے ہیں اس سے ؟

رچی کی باتوں میں گھر آ گیا۔میرا موڈ نارمل ہو چکا تھا۔ میں معاذ کو سفر میں پیش آنے والے لطیفے سنا رہا تھا۔ رات گہری ہوتی گئی۔ سونے سے قبل وہ مجھے تکیہ، کمبل وغیرہ دے کر رخصت ہوتے اپنے کمرے میں جانے لگا تو رک کر بولا

“ ویسے معاف کرنا شاہ جی یہ رچی نامی کردار صرف موڈ بدلنے کے واسطے میں نے تخلیق کیا تھا۔ نہ کوئی رچی ہے نہ اس کا کُتا۔ مگر اب آپ بالکل فِٹ لگ رہے ہیں۔ گڈ نائٹ۔”

اور ملبورن کی رات قہقہوں میں ڈھل گئی۔

Loading