Daily Roshni News

آم درخت سے کچا توڑا جاتا ہے۔ پھر اسے کریٹ پیٹی وغیرہ میں بند کرکے اندر مسالہ رکھ دیا جاتا ہے

ہالینڈ(ڈیلی  روشنی نیوز انٹرنیشنل )آم درخت سے کچا توڑا جاتا ہے۔ پھر اسے کریٹ پیٹی وغیرہ میں بند کرکے اندر مسالہ رکھ دیا جاتا ہے کہ دو سے تین دن میں آم کا گودا اندر سے نرم ہو جائے اور رنگ بھی پیلا ہوجائے۔ آم کھانے کے لیے تیار ہے۔

مسالہ ہے کیلشیم کاربائیڈ CaC2 جسے بازار میں موجود اکثریت آموں کو لگا کر آموں کا رنگ بدلا گیا ہوتا ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو پوری دنیا میں پھلوں کو لگا کر پکانا ممنوع ہے۔ اسکا ایک استعمال آپکو بتاتا ہوں۔ گیس ویلڈنگ دیکھی ہے؟ جو لوہے کی بڑی سی ٹینکی ہوتی اس میں ایک مسالہ ڈال کر آگ پیدا کی جاتی جس سے ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ وہ مسالہ یہی کیلشیم کاربائیڈ ہوتا ہے۔ یہ آتش گیر مادہ ہے جسے فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا۔ آموں کی پیٹی میں اسکی تھوڑی سی مقدار اتنی حرارت پیدا کر دیتی کہ آموں کا رنگ بدل جاتا اندر تک گل سڑ جاتے آم۔ اور یہ زہر آموں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔

 اسکا استعمال پاکستان میں بھی ممنوع ہے مگر یہاں کونسا قانون ہے۔ اسکے ساتھ ایک تو آم کی قدرتی خوشبو بدل جاتی۔ دوسرا کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم فوری تو منہ میں تیزابیت پیدا کرتے۔ گلا پکڑا جاتا، گلے میں جلن سی ہوتی ہے، خوراک کی نالی میں زخم ہوجاتے اور لانگ ٹرم نقصانات میں معدے کے السر انتڑیوں کے زہر، اسکن پرابلمز اور کینسر، گردے فیل ہونا جیسی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

دوسرا طریقہ ہے ایک گیس کا استعمال۔ جس کا نام ہے ethylene ایتھائلین C2H2 ہے۔ یہ گیس آموں کے اپنے اندر بھی ہوتی ہے۔ جس سے خود ہی آم پک جاتے ہیں۔ اسے پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت پوری دنیا پھل پکانے کے استعمال میں ریکمنڈ کرتی ہے۔ ایک بند چیمبر میں آم پھیلا کر ایتھائلین گیس چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس سے پکے آم رنگ تو بہت زیادہ پیلا نہیں کرتے۔ مگر ان کا ذائقہ بلکل قدرتی اور کمال ہوتا ہے۔ دوسرا صحت کے لیے اسکا کوئی بھی نقصان نہیں۔

ان ایتھائلین سے پکے یا اپنی ہی حرارت سے پکے آموں کا ذائقہ کیا بتاؤں آپ کو ایک نشہ سا ہے۔

اکثریت دوکانداروں کو اس بات کا پتا ہی نہیں ہے۔ کہ ایتھائلین اور کیلشیم کاربائیڈ کیا بلا ہیں۔ اور گاہک کو بھی بس گہرے پیلے رنگ کے آم چاہیں۔ تو جو ڈیمانڈ ہے اسی کے پیش نظر کیلشیم کاربائیڈ لگا کر آم فوراً پکا دیے جاتے جو ہم آج تک آم کے نام پر زہر کھا رہے ہیں۔

Copy

Loading