Daily Roshni News

اداس چہرہ۔۔۔ جرمن ادب سے انتخاب شاہکار افسانہ۔۔۔قسط نمر1

اداس چہرہ

جرمن ادب سے انتخاب شاہکار افسانہ

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ اداس چہرہ۔۔۔ جرمن ادب سے انتخاب شاہکار افسانہ)میں بندرگاہ کے کنارے گودی پر کھڑا ہو کر سمندری بگلے دیکھ رہا تھا، میرا غمگیں چہرہ ڈیوٹی پرموجود ایک افسر کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

میں پوری طرح ان سمندری پرندوں کو دیکھنے میں مگن تھا جو کھانے کی تلاش میں کبھی اوپر کو اُڑتے ور کبھی نیچے جھپٹتے جو بار بار پانی میں غوطہ لگاتے اور بھیگتے ہوئے جسموں سے پانی جھاڑنے کے لیے اپنے پروں و پھڑ پھڑاتے تھے۔ ان کے پروں سے پانی پھولوں پر شبنم کی طرح چپک رہا تھا ….

میں محویت سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہا تھا …. میری آنکھیں شاید اس منظر کے سوا کچھ اور دیکھنا ہی نہ چاہتی تھیں ….بندرگاہ سنسان تھی، پانی سبزی مائل اور گندے تیل سے بھرا ہوا تھا، ایک سطح پر مختلف قسم کا پھینکا ہوا کوڑا کرکٹ تیر رہا تھا۔ سمندر کی سطح پر پھیلے ہوئے تیل نے سطح کو مزید چمک دار اور گہرا بنادیا تھا۔ ارد گرد کوئی کشتی یا جہاز نہیں تھا۔ بندرگاہ پر کھڑی زنگ آلود کرینیں خاموش ہنرخ بوکل کھڑی تھیں۔

ساحلی عمارتوں پر سنسان ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ویرانی کا یہ عالم کہ چوہے بھی اندر داخل ہوتے ہوئے گھبرائیں۔ لگتا تھا اس ساحل پر غیر ملکی جہازوں کی آمد ورفت بند ہے۔ ہر ۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کئی سال گزر چکے تھے جب اس بندر گاہ کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔

میں نے ایک خاص سمندری بگلے پر نظریں جما رکھی تھیں اور اس کی پرواز کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ یکا یک وہ پرندہ ڈبکی لگا کر پھڑ پھڑاتا ہوا اڑا اور فضاء میں بلند ہو کر دوبارہ سمندر میں غوطہ زن ہوا، لمحہ بھر بعد اس نے پھر گردن تک غوطہ لگا یا اور پر پھڑ پھڑا کر ، اپنا بدن ہوئے ہوئے تولتے ہوئے پرواز کی تیاری کرنے لگا…. میں نے محسوس کیا کہ اسے پانی سے چھیڑ چھاڑ میں مزہ آ رہا ہے۔

ہوا میں اسے ادھر اُدھر اڑتے دیکھ کر مجھے گمان ہوا کہ وہ اپنے محبوب کو ڈھونڈ رہا ہے۔ مگر شاید محبوب سے زیادہ اس وقت اسے خوراک کی طلب ہورہی تھی۔ تبھی تو وہ سمندر کی شوریدہ لہروں سے بے پرواہ ہو کر اپنا وجود پانی کے سپرد کرتا اور شکار کی تلاش میں سر گرداں تھا۔ جب تک سانس اس کا ساتھ دیتا، وہ پانی میں گردن ڈالے رکھتا لیکن اس کی چونچ شکار سے محروم رہتی تھی۔ اس کے باوجود وہ ہمت نہ ہارتا … میں دل میں سوچنے لگا کہ کاش میرے پاس اس وقت ڈبل روٹی کا ٹکرا ہوتا تو میں اسے یوں تھکنے، بھٹکنے اور تڑپنے نہ دیتا۔ میں اسے ڈبل روٹی کے ٹکڑے ڈالتا جاتا اور پانی کی سطح پر اس کے ساتھ اس کھیل میں شریک ہو جاتا لیکن اس وقت میرے پاس ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا تک نہ تھا۔ میں بذات خود بھوک سے بے تاب اور اس پرندے کی طرح ہے بس تھا …. میں نے اپنے ہاتھ خالی جیبوں میں ڈال لیے اور اپنی خواہش دل میں دبالی ….

میں بھوکا، تھکا ہوا اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، بگلوں کو دیکھ رہا تھا اور اس غم کو اپنے اندر جذب کر رہا تھا۔ دفعتا کسی نے میرے کندھے پر زور سے اپنا ہاتھ

رکھا اور ایک آواز آئی:چلو ساتھ آؤ!” اس نے میرے کندھے کو کھینچنے کی کوشش کی، لیکن میں ہلا نہیں۔۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ ایک پولیس والا تھا۔

مجھے اس کی یہ دخل اندازی بری لگی۔ جی چاہا اس کا ہاتھ جھٹک دوں اور دوبارہ معصوم پرندے کا نظارہ کرنے لگوں۔ اس وقت تک، جب تک اس پرندے کی چونچ میں خوراک کا کوئی ٹکڑا نہ آجائے۔ لیکن اب تو میں خود اس سپاہی کے شکنجے میں شکار کی طرح پھنسا ہوا تھا۔

کامریڈ ….!“ اس نے میرے کندھے پر دباؤ ڈال کر کیا۔

” جی جناب ….! میں نے عاجزی سے جواب دیا۔

” جناب …. ؟ جناب کوئی لفظ نہیں، یہاں سب لوگ کامریڈ ہیں ….“ اس کی آواز میں واضح طنز تھا۔ تو پھر !… پھر آپ نے مجھے کیوں پکڑ رکھا ہے؟ کیا مجھ سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہے ….؟ وہ مسکرایا “جرم! تمہارا غمگیں چہ ما چیره…. تم غمزدہ نظر آتے ہو“۔

اس کی بات سن کر میں کھلکھلا کر ہنسا۔ اس میں بننے کی کیا بات ہے….؟ اس کا چہر ہ لال بھبھوکا ہو گیا۔

میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس وقت کچھ بیزار سا ہے اس لیے غصہ دکھا رہا ہے۔ آج شاید ساحل پر اسے کوئی شکار نہیں ملا۔ نہ کوئی نشے میں دھت مئے نوش اور نہ کوئی جیب تراش ….چند لمحوں میں ہی مجھے اندازہ ہوا کہ وہ واقعی غصے میں ہے اور مجھے شکار بنا نا چا ورہا ہے۔

اب اس نے دوسرا ہاتھ بھی بڑھایا اور مجھے قابو کر لیا۔ اس وقت میری حالت اس پرندے سے مشابہ تھی جو جال میں پھنس گیا ہو اور اس سے نکلنے کے لیے پھڑ پھڑا رہا ہو۔

اس کی گرفت میں پھنسے ہوئے میں نے صاف شفاف فضا کا جائزہ لیا۔ سمندر کو اپنی نظروں میں سمویا اور اپنے صیاد کے پہلو میں چلنے لگا۔ مجھے علم تھا کہ پولیس کی گرفت میں آنے کا مطلب یہی ہے کہ اب لمبے عرصے کے لیے مجھے تاریکی میں دھکیل دیا جائے۔

جرمن زبان کے ادیب، شاعر، طنز نگار اور مزاح نگار

ہنر خ بوئل 1917ء:1985ء

جرمن ادیب ہنرخ بو کل Heinrich Ball) 21 دسمبر 1917ء کو جرمنی کے شہریون میں پیدا ہوئے۔ انہیں اپنے گھر یلو حالات کے سبب اسکول اور کالج میں با قاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر نہ آسکا۔ مگر دانش و بینش مدرسوں کی محتاج کہاں ہوتی ہے۔ بطور ادیب انہوں نے اپنے عہد کو فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ علامتی سطح پر ان کی کہانیاں اور ناول پوری انسانیت کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ معاشرے کے گرے پڑے، کم مایہ اور بے سایہ لوگ ان کا خاص موضوع رہے ہیں۔ ان کی شخصیت میں انسان دوستی اور اخلاص ایک غالب عنصر تھا۔ باشعور قاری کو ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے اس کا احساس قدم بہ قدم ہوتا ہے۔ ہنرخ بوکل کے حصے میں یہ اعزاز بھی آیا ہے کہ انہوں نے جرمن ادب کا احیاء کیا اور اسے بین الا قوامی ادب کے مد مقابل مقام عطا کیا۔ ہنرخ بو ئل کو ان کی اعلیٰ ادبی خدمات

Heinrich Böll Mein trauriges Gesicht

Recen کے اعتراف میں 1972ء کے نوبل ادبی انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔

یہ کہانی جرمن کہانی Mein trauriges Gesicht یعنی میرا اداس چیره My Sad Face کے عنوان سے ہنر خ بوئل نے 1950 میں گھی۔ ہنرخ ہو کل 16 جولائی 1985 کو 67 سال کی عمر میں لینگن بورک ، نور درائن۔ ویسٹ فالیا، مغربی جرمنی میں انتقال ہو گیا۔

یہ سمندر میں دھکیل دیے جانے سے زیادہ اذیت ناک تھا۔ جیل کا خیال آتے ہی میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا اور ہکلاتے ہوئے کہا۔ کامریڈ …. میرا قصور تو بتائے….؟” قصور ! اس ملک کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص ہر وقت خوش نظر آئے۔ “

لیکن میں تو بے حد مسرور ہوں۔“ میں نے پورے جوش و جذبے سے جواب دیا۔ بالکل نقاط ! لیکن میں تو ملک میں رائج اس قانون سے نا واقف ہوں۔“

و کیوں ….؟ اس قانون کا اعلان چھتیس گھنٹے پہلے ہوا ہے تم نے کیوں نہیں سنا….؟ چو میں گھنٹے گزر جانے کے بعد ہر اعلان قانون میں بدل جاتا ہے۔“

لیکن …. لیکن، میں تو اس اعلان کے بارے میں اب سن رہا ہوں۔“

یہ اعلان تمام اخباروں میں چھپ چکا ہے۔ علاوہ ازیں جگہ جگہ لاؤڈ سپیکر نصب کر کے اس کا اعلان کیا گیا۔ ان چھتیس گھنٹوں میں تم کہاں تھے؟

وہ اب بھی مجھے اپنے ساتھ گھسیٹے جارہا تھا۔ شدید۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025

Loading