Daily Roshni News

اسٹریس میں مبتلا ملازمت پیشہ خواتین

اسٹریس میں مبتلا

ملازمت پیشہ خواتین

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک زمانہ تھا خواتین کسی ناگزیر معاشی مجبوری کے تحت گھر کی چار دیواری سے باہر قدم نکالتی تھیں، مگر اب خواتین کی کثیر تعداد صرف معاشی مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کام کر رہی ہیں کہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا استعمال کر کے معاشرے میں اپنی حیثیت منوائی جائے۔

لیکن اگر ملازمت پیشہ خاتون جو شادی شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ماں بھی ہو اور مرد و عورت دونوں گھر سے باہر ہوں تو یہ سوال لازما پیدا ہوتا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں گھر اور بچوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کیسے ہو گی….؟ کیا ایک ماں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کام کی دباؤ سے نمٹنے کےساتھ ساتھ اپنے بچوں سے بھی انصاف کر سکے۔ایسے گھرانے جہاں جو ائنٹ فیملی سسٹم رائج نہیں خواتین کا کام سے واپسی پر تنہا گھر سنبھالنا مشکل ہوتا ہے اور طویل دفتری اوقات کار اور گھریلو کاموں میں کسی مددگار کا نہ ہو نا ملازمت پیشہ والدین کے دباؤ میں مزید اضافہ کردیتا. مخصوص آماؤں میں۔

ہے۔شادی شدہ خواتین کی ملازمت کرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایسی خواتین جن پر بیک وقت گھر اور دفتر کی ذمہ داریاں ہوں انہیں یہ خیال پریشان کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہی ہیں۔ مرد و عورت کے کردار پر سماجی رویہ اگر چہ کسی حد تک تبدیل ہو چکا ہے لیکن آج بھی بچوں کی دیکھ بھال کرنا ماؤں کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ جب وہ گھر لوٹیں تو وہ نہ صرف رات کا کھانا تیار کریں، بچوں کو ہوم ورک بھی کرائیں، گھر کی صفائی کریں، اگلی صبح کے لیے لنچ بکس تیار کریں وغیرہ، لیکن یہاں سوال محض روایتی اور جدید رویوں کے متضاد ہونے کا نہیں بلکہ اس نفسیاتی دباؤ کا ہے جو ان توقعات پر پورا نہ اترنے کے بعد گھر اور دفتر دونوں جگہ ابھر سکتا ہے۔

خواتین میں نفسیاتی دباؤ :اکثر خواتین معاشی مجبوری کے تحت فل ٹائم جاب کرتی ہیں۔ مسٹر علی گزشتہ چھ سال سے ایک پرائیوٹ کمپنی میں بطور سیکر ٹری ملازمت کر رہی ہیں اور پانچ سالہ بچے کی ماں بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے۔

میں معاشی مجبوری کی بنا پر ملازمت کر رہی ہوں۔ میرے شوہر کی آمدنی گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ملازمت کرنے سے پہلے میں نے اور شوہر نے ہر پہلو پر غور کیا کہ بچے پر میری ملازمت کا کیا اثر پڑے گا….؟ ہم اپنے بچے کی تعلیم اور ضروریات پر زیادہ پیسے خرچ کر سکیں گے وغیرہ لیکن جب میں نے دفتر جانا شروع کیا تو ہر وقت ایک احساس جرم ساتھ رہتا۔ اگر میرے بچے کو کھانسی یا نزلہ ہو جاتا تو مجھے اس میں اپنا قصور نظر آتا۔ اگر وہ بد تمیز یا جھلایا ہوا ہوتا تو میں سمجھتی کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ میں اسے دن بھر کے لیے اکیلا چھوڑ دیتی ہوں۔ کبھی میں اس کے ساتھ پیار محبت سے پیش آتی ہوں تو کبھی اس کے ساتھ سخت اور درشت رویہ اختیار کرتی ہوں اگر کبھی آفس میں دیر ہو جائے تو بیٹے کو بہلانے کے لیے آئس کریم یا پیز اکھلانے کے لیے لے جاتی ہوں لیکن دوسرے دن اس کی پیزا کھانے کی فرمائش مجھے ناگوار گزرتی ہے اور میں اسے بری طرح ڈانٹ دیتی ہوں۔ جب میر ادن اچھا گزرتا ہے تو میں اسے خوب گلے لگا کر پیار کرتی ہوں۔ مگر جب دن بدمزگی میں گزرے تو میرا دل چاہتا ہے کہ خود کو ایک کمرے میں بند کر کے خوب زور زور سے چلاؤں، اس وقت میں بیٹے کے ساتھ کھیلنا بالکل پسند نہیں کرتی۔ دوسرے الفاظ میں دفتری زندگی میری ذاتی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔“

بینک آفیسر کیا کہتی ہیں۔۔۔؟

 میں ان ماؤں میں سے ہوں جو رات گئے بچوں کو ہوم ورک کرواتی ہیں اور امتحانات سے پہلے تمام مضامین کی تیاری کرواتی ہیں۔“

یہ خیالات ہیں مسنز فرقان کے جو ایک بینک آفیسر ہیں ” میرے شوہر فرقان بہت اچھے انسان ہیں۔ وہ گھریلو ذمہ داریوں میں میر ا ہاتھ بناتے ہیں لیکن بچے اپنی ضروریات کے لیے میری جانب دوڑتے ہیں۔ کبھی وہ اسپورٹ ڈے کے لیے ٹی شرٹ خریدنے کے لیے مجھے بازار لے جاتے ہیں تو اپنا ہوم ورک بھی مجھ سے ہی چیک کرواتے ہیں۔ میرے شوہر مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نے بچوں کو بگاڑ دیا ہے، انہیں آزاد اور خود مختار بنا چاہیے لیکن میں چاہتی ہوں کہ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں ان کی زندگی کی چھوٹی سی چھوٹی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہوں۔ انہیں احساس رہے کہ دفتری مصروفیات میرے اور ان کے درمیان حائل نہیں ہو سکتیں۔“

دفتری کام میں دل نہیں لگتا؟ ایسی خواتین جو کل وقتی ملازمت کرتی ہیں ان پر شدید پیشہ ورانہ دباؤ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر دفتر میں میٹنگ ہو رہی ہو جس میں اگلے سال کے بجٹ کا خاکہ مرتب کیا جارہا ہے۔ عین اس وقت آپ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی ہوں کہ آپ کے بیٹے نے نچ کر لیا ہو یا کہیں وہ باہر کھیلنے اکیلا نہ چلا گیا۔ ہوں۔ گویا آپ میٹنگ میں ہونے والی گفتگو پر دھیان نہیں دے پارہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اٹھ کھڑی ہوں اور کہنے لگیں۔

معاف کیجیے گا یہ بحث کسی اور دن نہیں ہو سکتی۔ کل میرے بیٹے کا ٹیسٹ ہے۔“ جیسا کہ مسر طاہر کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے۔ دفتر میں میرا ذہن بالکل بند ہوتا ہے۔ کیونکہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میرا بیٹا میرے بغیر کھانے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ وہ چاہتا ہے کہ میں ہر وقت اس کے ساتھ رہوں اور اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاؤں، جو نہی میٹنگ ختم ہوتی ہے۔ میں گھر جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ اس کے سونے سے پہلے گھر پہنچ جاؤں لیکن اکثر گھر پہنچنے تک وہ میرا انتظار کرتے کرتے سو چکا ہوتا ہے۔ گھریلو پریشانیاں گھر تک رکھیں ملازمت پیشہ ماؤں کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ گھر یلو الجھنیں اور معاملات دفتر میں نہ لے آئیں اور انہیں بھول کر صرف اور صرف دفتری کاموں پر توجہ دیں۔ عموماً دفتر میں خواتین سے بھی وہی کام لیا جاتا ہے جو مرد سے لیا جاتا ہے، ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سفر کریں۔ میٹنگوں میں دیر تک شریک ہوں، دفتر کے مطلوبہ اہداف اور مقاصد پورے کریں لیکن جب وہ گھر میں داخل ہوتی ہیں تو بچوں اور گھر کی ذمہ داریاں ان کی منتظر ہوتی ہیں اور وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے کسی تھکن کا اظہار کیے بغیر انہیں سنبھالنے کی کوشش کرتی ہیں۔

شریک سفر کو بچے کی ذمہ دایوں میں شریک کریں بچوں کے تقاضے روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہ ایسی ضروریات نہیں جنہیں چھٹی کے دن تک ٹالا جاسکے۔ اگر آپ ملازمت پیشہ ماں ہیں تو حتی الامکان اپنے شریک سفر کو بچے کی ذمہ داریوں میں شامل کیجیے۔ بچوں کی پرورش میں ابتداء ہی سے انہیں ذہنی طور پر تیار کریں کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ماں اور باپ دونوں سے توقعات وابستہ رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے بلکہ والدین کے لیے بھی زندگی کو آسان بنائیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2018

Loading