Daily Roshni News

اللہ اور بندے کا باہمی تعلق۔۔۔ تحریر۔۔۔نجیب عالم

اللہ اور بندے کا باہمی تعلق

تحریر۔۔۔نجیب عالم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اللہ اور بندے کا باہمی تعلق۔۔۔ تحریر۔۔۔نجیب عالم )اس شمارے میں شامل مضامین میں تصوف، اصول دعا، حضرت شاہ عبدالرحیم عید مبارک دہلوی، مصر میں اہرام، مرید کی خصوصیات، آو! مسلمان تو کدھر جارہا ہے،

آدھے سر کا درد، جشن عروسی ، روحانی لائبریری کا افتتاح شامل تھے۔ جبکہ قسط –

دار اور سلسلہ وار مضامین میں نور اسی نور ثبوت، صدائے جرس، دبستان مخیال، اپریل 1992ء کے شمارے کا سرورق تذکرہ خوشید، محفل مراقبہ ماورائی دنیا، ہمارے نبی زندہ نبی ، جمال رسول ، نام اور ہماری زندگی، مذاہب عالم، سنہرے باب، پیراسائیکلوجی، محاسب ، روح کہانی اور آپ کے مسائل شامل تھے۔ اس شمارے سے منتخب کردہ تحریر سلسلہ وار مضمون ” الله اور بندے کا باہمی تعلق قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے دی جارہی ہے۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تمام جانوروں کا رزق ہمارے ذمہ ہے اور دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کروڑوں انسانوں کو رزق کا مسئلہ در پیش ہے۔ کہیں رزق ہے ۔ کہیں قحط پڑا ہوا ہے۔

اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام جانداروں کا رزق اسی زمین میں ودیعت کر دیا ہے اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس کو کس طرح حاصل کریں۔

جو وسائل رزق کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں اور جو تمام نوع انسانی کے لی قدر عالیہ نے رکھے ہیں وہ اد تعلیم، گردی امار داری، قوموں کی تنگ نظری و محمود غرضی اور غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ناوالی نظر آتے ہیں۔ صرف ان کی تقسیم کا نظام غیر منصفانہ ہے۔ ہی امارا کام ہے کہ ہم اسے خصاله تقسیم کرکے نوع انسانی کو فلاح و بیود سے ہمکنار کریں۔

جہاں تک حوادث ارضی و سماوی کا تعلق ہے ان کے جملہ اسباب و علل کی تحلیل بھی انسان اپنی تمام رانی و فکری تھی کے باوجود نہیں کر سکا ہے۔ جب ان اسباب و علل کا انسان کو پوری طرح علم ہو جائے گا تو وہ سیلاب ، خنک سالی، قلد و غیر و پر کنٹرول کرنے کے

قابل ہو جائے گا۔

تا ہم انسانی کاوش سے اس سلسلہ میں ترقی ہوتی ہے۔ غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق کائنات نے نظام عالم میں انسان کو مرکزی حیثیت عطا فرمائی ہے۔ اللہ نے نوع انسان کو عقل عطا کر کے اسے اختیار دیا ہے کہ وہ زمین میں پھیلے ہوئے وسائل کو بروئے کار لائے اور ان سے حاصل شدہ رزق کو عادلانہ طریق پر تمام اقوام عالم میں تقسیم کرے۔ اگر تدبیر کو استعمال کیا جائے تو رزق کی کمی دنیا کے کسی خطہ میں محسوس نہیں ہوگی کیونکہ ایک کم پیداوار کا علاقہ دوسرے شاداب و سرسبز علاقے سے رزق حاصل کر سکتا ہے۔ ان کی عادلانہ تقسیم کے بعد کسی قوم کا محروم رہنا ناممکن ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ لوگوں کے دل خود غرضی، تعصب اور رنگ و نسل پر مینی برتری اور تفوق و تمبر سے پاک ہوں۔

اقوام عالم میں چند قوموں نے محض اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے وسائل کو اسلحہ کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ آتش گیر مادہ میں اربوں کھربوں ڈالر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہی رقم اور وسائل نوع انسانی کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی تو دنیا میں کوئی ملک بھو کا نیگا نہیں رہتا ….

اللہ ہر جاندار اور ہر انسان کے منہ میں خود لقمہ نہیں ڈالتا بلکہ اس نے سب کی کامل کفالت کا سامان پیدا فرما دیا ہے چنانچہ زمین، سورج، ہوا، پانی، بیج وغیر ہ سب اللہ نے پیدا کر دیے لیکن کاشت کر کے غلہ پیدا کرنا، اسے نہیں کر آٹا بنانا گوندھنا اور روٹی پکا کر کھانا دور دوسروں کو کھلانا انسان کا کام ہے اور ان وسائل رزق کی منصفانہ تقسیم بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔

اللہ اور اس کی مخلوق کے باہمی تعلق کو ہم حضرت عمر فاروق کے اس قول سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ” میں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے یا پھر بڑھیا کے اس قول سے کہ عمر خلافت کے قابل نہیں اگر اسے میری حالت کا علم نہیں۔ اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عمر فاروق کو ذاتی طور پر ہر شخص سے واسطہ رکھیں ، وہ ہر شخص کو اپنے ہاتھ سے خوراک فراہم کریں۔ مختصر یہ ہے کہ ایسا نظام قائم ہو جس سے کسی کی حاجت یا ضرورت رکی نہ رہے۔ ہر ایک کو اس عادلانہ نظام کا مساوی و منصفانہ فائدہ پہنچے کسی پر ظلم نہ ہو، کوئی ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔ یہی اللہ کی رزاقیت کا مفہوم ہے کہ اس نے رزق کے جملہ اسباب و وسائل مہیا کر دیے ہیں لیکن ان سے کام لینا فائدہ اٹھانا اور دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہمارا کام ہے۔

عالم میں اسباب و علل ان کے نتائج کا جو جال بچھا ہوا ہے وہ سب کا سب اللہ کا پیدا کر دہ ہے۔ چونکہ اس نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم خیر کی طرف جائیں یا شر کی طرف۔ لہذا د نیا میں جو شر نظر آتا ہے وہ اسان کا خود پیدا کردہ ہے قدرت نے جس چیز کو جس مقد کے لیے پیدا کیا ہے اگر ہم اس کو ناحق اور غلط استعمال کریں گے تو اس ناانصافی، جہالت اور وسائل کی غلط تقسیم سے دنیا فساد کی لپیٹ میں آجاتی ہے جہسا کہ آج

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجست   اپریل2017

Loading