میرپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں احمد صاحب اپنی کٹیا میں اکیلے رہتے تھے۔ان کی ایک ہی ساتھی تھی اور وہ ان کی گائے تھی۔ان کے پڑوسی سلیم میاں کا بکرا چوری ہو گیا تھا۔ایک دن گائے چارا کھا رہی تھی کہ اسے آواز آئی:”بہن! میں بھوکی ہوں مجھے کھانا دے دو۔“
گائے نے دیکھا کہ ایک بھیڑ کھڑی ہے اور اس کے چارے کی جانب آ رہی ہے۔
گائے زور سے بولی:”ارے ارے رکو بہن جی! کون ہو تم اور تمہارا مالک کہاں ہے؟“
بھیڑ نے کہا:”میرا مالک مجھے مارتا تھا۔میں اس سے بچ کے بھاگ آئی اور دو دن سے مجھے کھانا نہیں ملا۔اسی لئے بہت بھوکی ہوں۔خدا کے لئے کھانا دے دو۔بہت دعائیں دوں گی۔“
گائے بولی:”نہیں بہن! جاؤ کسی اور کے پاس۔
میں اپنا کھانا نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ میرے مالک نے مجھے دیا ہے۔اتنے میں احمد صاحب آ گئے اور سارا ماجرا سمجھ گئے، پھر بھیڑ کو بھی کھانے کے لئے دیا۔وہ سوچ رہے تھے کہ رزق اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بھی لکھا ہو گا جبھی یہ یہاں آئی۔جب ہم کوئی بھی چیز جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے اس میں سے کسی مجبور کو بانٹتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے زیادہ دیتے ہیں۔اب گائے اور بھیڑ آپس میں دوست بن گئی تھیں۔احمد صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ سلیم میاں کا بکرا جو چوری ہو گیا تھا تو کیوں نہ یہ بھیڑ ان کو دے دیں۔اس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوں گے اور سلیم میاں کی مدد بھی ہو جائے گی۔