انتقام کی آگ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔انتقام کی آگ)یہ قانون قدرت ہے کہ وقت کے ساتھ دکھ سکھ میں بدلتے رہتے ہیں لیکن میرے ساتھ ایسا نہ ہوا ۔ ہوش سنبھالا ۔ تو ماں کا رویہ اور ماؤں سے مختلف پایا۔ اس بات سے دل بجا بجھارہتا تھا مگرکم سنی کے باعث اصل وجہ سمجھ نہ پاتی تھی۔ پڑوس میں چاچی جنت کا گھر تھا۔ جب ماں مجھے مارتی ، تو وہ میرے رونے کی آواز سن کر مشترکہ دیوار میں لگی کھڑکی سے ہمارے صحن میں آجاتی اور مجھے ماں کی مار سے بچاتی ، چپ کراتی اور کہتی کہ بیٹی صبر کر، دکھی مت ہو۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے ۔ تیری شادی ہوگی ، تو تو سکھی ہو جائے گی۔ یہ سن کر میرے ذہن میں یہ خیال ایسا پکا ہو گیا کہ شادی کے بعد تمام دکھ ختم ہو جاتے ہیں۔ اب میں اس انتظار میں جینے لگی کہ بڑی ہو جاؤں گی تو شادی کے بعد میرے دکھ ختم ہو جائیں گے۔ بس یہی سوچ مجھے حوصلہ دیتی رہی اور میں صبر کے ساتھ ماں کے ستم سہتی رہی۔
بابا جان کی کافی زمینیں تھی ، خوشحالی تھی ، کھیت کھلیان ہری بھری فصل کی صورت سونا اگلتے تھے، جس کی وجہ سے میرے بھائی افسر میں غرور آ گیا تھا۔ وہ سفید براق ، کلف دار کپڑے پہنتا، تلے والا کھسہ پیروں میں چرمرا تا ہوا، اکڑ کر چلتا تھا۔ اس کا اترانا والد کی وجہ سے تھا، جن سے گاؤں کے لوگ ڈرتے تھے۔ بھیا کا ایک لفنگا سا دوست تھا، جس کا نام صاحب داد تھا۔ وہ ہمارے گاؤں کی ایک لڑکی شبو سے عشق میں مصروف تھا اور اپنی ملاقاتوں کا سارا حال بھائی کو بتاتا ، اس سے اس بارے میں مشورے بھی لیتا رہتا تھا۔ بھائی ایسے کاموں میں اس کا دست راست تھا۔ صاحب داد کو اگر شبو سے رات میں کھیت میں ملنا ہوتا ، تو بھائی پہرے داری کا فرض سنبھال لیتا تا کہ کسی کو آتا دیکھے تو انہیں خبر دار کر دے۔ صاحب داد کا باپ اللہ داد بھی زمیندار تھا لیکن وہ ایک لالچی آدمی تھا۔ بیٹے کے عشق کا اسے پتا تھا، مگر لڑ کی غریب تھی لہذا باپ نے اس سے شادی کی اجازت نہ دی بلکہ تنبیہ کی کہ اگر تم نے اس چھوکری سے شادی کی تو میں تم کو گھر سے نکال دوں گا، تاہم شبو اور صاحب داد کی کھیتوں میں ملاقاتیں جاری رہیں ۔ اڑتی اڑتی خبریں اللہ داد کے کانوں میں پڑیں تو وہ پریشان رہنے لگا۔ سوچا کیوں نہ بیٹے کی شادی کسی اچھے گھرانے کی لڑکی سے کر دوں۔ وہ اپنے دوست عادل خان کے پاس گیا اور بیٹے کے لئے اس کی لڑکی کا رشتہ مانگا۔
عادل خان خوشحال زمیندار تھا اور اللہ داد سے اس کی پرانی دوستی تھی ، اس نے فورا ہاں کر دی ۔ گرچہ صاحب داد کے بارے میں ایسی ویسی باتیں اس کے کانوں تک بھی پہنچتی رہتی تھیں لیکن اس نے یہ سوچ کر دوستی کا پاس رکھا کہ لڑکے جوانی میں اس طرح کے معاملات میں ایک ادھ بار ضرور الجھتے ہیں۔ زمینداروں کے لئے ایسی باتیں کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ یوں اس کی بیٹی عالیہ سے صاحب داد کا رشتہ طے ہو گیا۔ باپ کا رعب اتنا تھا کہ بیٹا کچھ نہ کر سکا۔ باپ نے دھمکایا اور ماں نے رو رو کر واسطے دیئے تو صاحب داد کو عالیہ سے بیاہ کرنا پڑا۔ وہ اچھی لڑکی تھی۔ اسے صاحب داد کے معاملات کا علم نہیں تھا۔ وہ اسے اپنا مجازی خدا مان کر چاہنے لگی۔ اس کی خدمت کرتی اور چاہتی تھی کہ شوہر اس سے خوش رہے۔ وہ شوہر کے ساتھ ساتھ، ساس سسر کا بھی خیال رکھتی تھی تا کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے ۔ کچھ دن تو صاحب داد پر سکون رہا ۔ سب یہی سمجھے کہ عشق کا معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے لیکن یہ ایک دبی ہوئی آگ تھی، جس پر وقتی طور پر چھینٹا پڑ گیا تھا، مگر چنگاریاں اندر سلگ رہی تھیں ۔ وہ شبو کو نہ بھلا سکا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں ہوک اٹھنے لگی۔ اب جب وہ شبو سے مل کر آتا ، بیوی کو اپنی خوشی کی راہ کا کانٹا سمجھتا ۔ وہ جس قدر اس کا خیال کرتی ، وہ اس سے اس قدر ہی چڑتا اور نفرت محسوس کرتا۔ رفتہ رفتہ یہ نفرت شدید ہوتی گئی ۔
ایک دن کسی نے عالیہ کو بتا یا تمہارا شوہر گاؤں کی فلاں لڑکی سے محبت کرتا ہے اور وہ راتوں کو چھپ چھپ کر ملتے ہیں ۔ اس نے شوہر سے باز پرس کی اور کہا کہ اگر یہ بات چ ہوئی تو وہ نہ صرف میکے چلی جائے گی بلکہ اپنے باپ کو آگاہ کردے گی ۔ اس طرح جھگڑا بڑھے گا۔ صاحب داد ان دھمکیوں میں آنے والا نہیں تھا، اس کے قدم نہ رکے اور وہ کار زار عشق میں آگے ہی بڑھتا گیا۔ عالیہ کی گرے پڑے خاندان سے نہ تھی۔ وہ بھی ایک زمیندار گھرانے کی بیٹی تھی۔ اس نے شوہر کو صاف کہہ دیا کہ اگر تم راتوں کو اسی طرح کہ غائب رہے اور آدھی رات کے بعد دیوار پھاند کر گھر آئے تو ، میں تمہارے والد کو آگاہ کر دوں گی ۔ صاحب داد اپنے باپ سے بہت ڈرتا تھا۔ وہ بیٹے اپنے کو کچھ نہ بھی کہتا، مگر شبو کے خاندان کی شامت آجاتی، یا ان کا سامان لدوا کر گاؤں بدر کر دیا جاتا یا اس گھرانے کا کوئی بڑا نقصان کرا دیتا۔