ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو انٹرنیشنل )انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے، زندگی کے ارتقاء میں انسان کا اپنے مادی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے خارجی دنیا میں جتنا ذیادہ انہماک بڑھتا رہا اسی مناسبت سے الفاظ کا ذخیرہ وجود میں آتا گیا ، اشاروں سے لیکر الفاظ تک کے ارتقائی سفر میں مادی شعور جتنا ذیادہ مضبوط ہوا اسی مناسبت سے انسان باطنی صلاحیتوں سے بھی دور ہوتا گیا، کرہ ارض پر انسان واحد مخلوق ہے جو الفاظ یا گفتگو کے ذریعے اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور اپنے تقاضے پورے کرتا ہے، دنیا میں ساڑھے چھ ہزار زبانیں اور بولیاں ہیں انسان کیسے بولتا ہے اس حوالے سے ماہر لسانیات کے مختلف نظریات ہیں جو کسی بھی طرح شعور میں پورے نہیں اترتے، روحانی علوم کی روشنی میں انسان کے بولنے کے چار مدارج ہیں
ا۔ اطلاعات کا آنا اور وصول کرنا
2۔ اطلاعات کے اندر ماحول کے مطابق معنی پہنانا
3۔ دماغ کے اندر حروف یا الفاظ کی متعین کردہ نشانی جو ماحول میں رہ کر مشق سے سیکھی ہوتی ہے۔ استعمال میں لانا
4۔ اطلاعات برقی رو پر مشتمل ہوتی ہیں، ماحول سے بنی ہوئی نشانیاں اور انکے خدوخال برقی رو کے اندر داخل ہوجاتے ہیں سانس کے ذریعے جب یہ برقی رو زبان سے ٹکراتی ہے اور زبان ہمارے منہ کے اندر تالو، ہونٹوں، دانتوں اور منہ کی اندرونی دیواروں سے ٹکراتی ہے تو سانس اواز بن کر باہر نکلتا ہے ، اسی آواز کو لسانیات کا نام دیا جاتا ہے،
اگر اطلاعات آنی بند ہوجائے کوئی انسان سمیت کوئی بھی مخلوق بھی زندگی کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ بولنے کے لیے دماغ کے اندر اطلاعات کا آنا ضروری ہے اور یہی اطلاعات آواز کے اندر منتقل ہو کر پورے جسم میں پھیل جاتی ہیں
کائنات کے اندر تمام نوعوں کو اطلاعات بلکل ایک جیسی آتی ہیں لیکن ہر نوع اپنی جسمانی ساخت، فطرت اور جبلت کے تحت معنی پہناتی ہے، مثلا بھوک کی اطلاع شیر، چیتے، بھیڑیے کو آتی ہے تو گوشت کے حصول کے معنی پہنائے گا سبزی نہیں کھائے گا، بھوک کی اطلاع اگر بھینس، گائے، ہرن، گھوڑے بکری کو آئے گی تو گھاس یا چارہ کے معنی پہنائیں گیں، گوشت نہیں کھائیں گے، پیاس لگنے پر تمام مخلوقات پانی ہی استعمال کرتی ہیں۔ انسان کے اندر بھی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا فطری اور جبلی نظام موجود ہے لیکن وہ معنی پہنانے میں علم کا بھی استعمال کرتا ہے، علم کی بنا پر انسان کے اندر اطلاعات کو مظاہراتی روپ میں ڈھالنے کے لیے ماحول اور معاشرے میں لسان یا زبان کا استعمال کرتا ہے لیکن ایک بات جو سب سے اہم ہے کہ تمام مخلوقات انسان سمیت جب تم نوعیں اطلاعات وصول کرتی ہیں تو ان اطلاعات کے اندر مظاہراتی دنیا کے خدوخال اور نقش ونگار روشنی یا لہروں کی شکل میں موجود ہوتے ہیں کائنات کی تمام نوعیں انسان، جن، فرشتے، جمادات نباتات اور حیوانات کے اندر تقاضے بلکل ایک جیسے ہوتے ہیں کائنات کی تمام مخلوقات کے اندر ایک جیسے خدوخال اور نقش ونگار کا ہونا روحانی اصطلاح میں ” عربی زبان” ہے، اور یہی الہامی زبان کہلاتی ہے، یہی زبان سب سے بڑی ہے سورہ شعراء میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں ک
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍﭤ(195)وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ(196)
عربی زبان سب سے بڑی ہے ۔اور بیشک یہ پہلے سے چلی ارہی ہے
اسی زبان سے اللہ اور فرشتے گفتگو کرتے ہیں، اسی زبان سے انسان جن اور فرشتے اپس میں گفتگو کرتے ہیں، اسی زبان سے حضرت مریم نے فرشتے سے کلام کیا، اسی زبان سے حضرت سیلمان علیہ السلام نے ہدہد، چونٹی سے گفتگو کی، اسی زبان سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں اور پتھروں سے گفتگو فرمائی، اسی زبان سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ساریہ کو بغیر کسی وسیلے سے پیغام ارسال کیا، یہی زبان قرآن کی زبان یا عربی زبان کہلاتی ہے، یہی زبان تمام مخلوقات اور انواع کے اندر بلکل ایک ہی طرز پر کام کرتی ہے مثلا پانی اردو زبان کا لفظ ہے اسے انگلش زبان میں واٹر(water), فارسی میں آب، ہندی میں جل، عربی میں ماء، اور چائنیز زبان میں شوئی کہتے ہیں ، چیز ایک ہی ہے ، سب قوموں کے افراد کے اندر پانی کی شکل و صورت، نقش ونگار اور اس کی ہئیت وماہیت بلکل ایک جیسی ہیں، کیونکہ اطلاعات کائناتی زبان ہے، پیاس کی یہی اطلاع کسی بھی مخلوق یا انواع کے اندر داخل ہوگی تو پانی کے ہی ہر ایک کے اندر یکساں تصوّرات پیدا کرے گی، اطلاعات کی یہ زبان جو سب تخلیقات کے اندر ایک جیسے خدوخال نقش ونگار اور ہیت و ماہیت بنا رہی ہے یہی کائناتی زبان عربی زبان کہلاتی ہے، کسی بھی زبان کے الفاظ کے پیچھے اسی فہم ایک ہی ہوتی ہے اس فہم کو دوسری زبان میں بیان کرنے کے لیے ترجمہ (translate ) کا سہارا لیا جاتا ہے، زبانیں مختلف ہونے کے باوجود فہم اور دماغ کے اندر خدوخال اور نقش ونگار ہیئت و ماہیت ایک ہی ہوگی۔
چونکہ قرآن اللہ تعالٰی کا کلام ہے اور اللہ کا کلام عرب میں بولی جانے والی عربی زبان میں لکھا گیا کیونکہ آقا علیہ السلام کی زبان عربی تھی لیکن اس زبان کے پس پردہ جو انوار و تجلیات اور روشنیاں اطلاعات اور لہروں کی شکل میں ان کے اوپر نازل ہوئیں ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس غار حرا والی سنت مراقبے کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے
عربی اور عربیا لفظ قرآن میں 11 مرتبہ آیا ہے، سورہ یوسف کے حوالے سے تیسرا عنوان عربی زبان کیا ہے اور عقل سے کیا تعلق ہے، اس پوسٹ میں وضاحت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، قران مجید میں عربی زبان کے حوالے سے 11 آیات میں تین باتیں مشترک ہے
ا۔ قرآن عربی میں نازل کیا گیا
2۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے
3۔ عربی زبان سب سے بڑی ہے
پچھلی پوسٹ میں کتاب المبین کے عنوان میں کتاب اور مبین کی تعریف کی جا چکی ہے، قران کے لغوی معنی پڑھائی کے ہیں اور پڑھائی کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے
1۔ آنکھیں
2۔ روشنی
3۔ آنکھ کا نور
اگر آنکھ کے پس پردہ کام کرنے والا نور نہ ہو تو آنکھیں اور روشنی کا عمل بیکار ہو جاتا ہے، یہی نور ہمارے حواس کے اندر کام کرتا ہے، مراقبے کے ذریعے اس نور میں اضافہ کرکے ہم کائناتی زبان سے واقف ہوسکتے ہیں، سورہ یوسف میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں کہ
” اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲﴾ بیشک ہم نے قرآن کو عربی میں نازل کیا تاکہ تم عقل کرو۔”