Daily Roshni News

اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے

اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)کبھی کبھی انسان اپنوں کے ہجوم میں بھی تنہا رہ جاتا ہے۔

بات یہ نہیں ہوتی کہ ہمیں کوئی سمجھنے والا نہیں ہوتا یا سمجھ نہیں سکتا،

بات یہ ہوتی ہے کہ ہمیں کوئی سمجھنا نہیں چاہتا۔

نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر کوئی اپنی ذات میں الجھا ہوا ہے۔

ہر کوئی دوڑ رہا ہے،

کوئی خوابوں کے پیچھے، کوئی خواہشوں کے پیچھے۔

تعلقات بنانے والوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے،

ہر کوئی رشتے کا پھول لیے کسی نہ کسی راہ پر کھڑا ہوتا ہے،

لیکن نبھانے والوں کی نفسیات میں بہت تھکن ہوتی ہے۔

کوئی دو قدم ساتھ چل سکتا ہے، تو کوئی چار،

مگر کون ہے جو عمر بھر کا روگ لے کر بیٹھ جائے؟

ہنسو تو دنیا دیوانی ہو جاتی ہے،

روؤ تو دیواریں بھی ہنستی ہیں۔

حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا تھا کہ عشق کیوں ہوتا ہے؟

آپؓ نے فرمایا: “اول جو روحیں اک ساتھ رکھی گئی تھیں، جب دنیا میں دوبارہ آمنے سامنے ہوتی ہیں، تو انہیں عشق ہوتا ہے۔”

لیکن ہاں، جن سے درد کا رشتہ ہوتا ہے، وہی رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔

مگر اکثر ہم خود سے دھوکہ کھا جاتے ہیں،

جانا کہیں اور ہوتا ہے، چلے کہیں اور جاتے ہیں۔

جب تک درست سمت کو لوٹتے ہیں، بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

وہ پرندے اُڑ جاتے ہیں، جن کے شجر کا تنکا تنکا ہمارا منتظر ہوتا ہے،

اور…

خالی شجر کا درد بند پنجروں کے درد سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

مجھے اگر کہیں خدا مل گیا، تو میں پوچھوں گی اس سے:

“تو نے دوزخ تو دنیا میں ہی بنا دی تھی،

پھر آخرت میں بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

جو زمینی دوزخ میں جل کر راکھ ہو چکے،

انہیں آسمانی دوزخ کیا جلائے گی؟”

جب کبھی ہم کسی درد کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں،

اور ہمارے درمیان ایسا کوئی اپنا نہ ہو،

جو ہمارے درد کی تپش کو محسوس کر سکے،

غم شریک نہ سہی، تسلی بھی میسر نہ ہو،

تو وہ اذیت زندہ جلا دیتی ہے۔

راکھ کر دیتی ہے۔

جب ہم اپنی لڑائی خود لڑ رہے ہوتے ہیں،

تو اک وحشت روح کی گہرائیوں میں چھپ جاتی ہے۔

جیتیں تو جیا نہیں جاتا،

مرتے ہیں تو موت نہیں آتی۔

ان لمحوں میں جن اپنوں کے دو میٹھے بول سننے کے لیے دل ترستا ہے،

وہی توقع لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہم ان کے معیار پر پورا اتریں۔

اس دنیا میں سچ کے راستے سے مشکل کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

ضمیر کا زندہ ہونا بہت اذیت دیتا ہے،

اصولوں کے کانٹے لہولہان کر دیتے ہیں۔

زندگی ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتی ہے کہ

رونا چاہیں تو آنسو خشک ہو جاتے ہیں،

چیخنا چاہیں تو چیخ گلے میں اٹک جاتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ دکھ کے بعد سکون بھی ملتا ہوگا کہیں کسی کو،

میں نے تو بس ان گناہوں کی سزا کاٹی ہے، جو میں نے کیے ہی نہیں۔

میں نے بے بسی کی انتہا پر کھڑے ہو کر دیکھا ہے،

سوکھے درختوں پر پرندے بھی اپنا آشیانہ نہیں بناتے۔

یہاں کون درد سے سِمٹ کر قہقہوں سے دستبردار ہوتا ہے؟

ہاں، مگر آرزوؤں کے سورج کبھی نہیں ڈوبتے،

دل نادان امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا۔

ہم جن ناکام حسرتوں میں جلتے ہیں، وہی ہمیں روشنی فراہم کرتی ہیں۔

طلب کی پیاس کبھی نہیں بجھتی،

کہ کوئی تو سمجھے، کوئی تو چاہے،

جو فقط قہقہوں کا ساتھی نہ ہو،

بلکہ آنسوؤں تک بھی ہاتھ تھام کر رکھے۔

جب درد سے دل پھٹ رہا ہو،

جب ہم دل ہی دل میں کسی کو چیخ چیخ کر پکار رہے ہوں،

جب ہم اسے دل ہی دل میں آواز دے رہے ہوں، بلا رہے ہوں کہ

“آؤ، مجھے سنبھالو، میں گر رہا ہوں!

آؤ، مجھے سمیٹو، میں بکھر رہا ہوں!”

مگر ہماری پکار ہمارے گلے میں اٹک جائے، ہم بلا نہ سکیں، آواز نہ دے سکیں…

پھر بھی وہ آئے، اور پوچھے:

“تم نے مجھے بلایا کیا؟

تم نے مجھے آواز دی کیا؟

مجھے کچھ سنائی دیا، میری دل کی دھڑکن بے ترتیب سی ہو گئی ہے۔

تم کسی مشکل میں ہو کیا؟

تم کسی غم میں ہو کیا؟

تمہیں میری ضرورت ہے کیا؟”

پھر میں اس کے گلے لگ کر وہ سب آنسو بہا دوں،

جو میرے دل پر غبار بن کر چھائے ہوں۔

وہ یہ نہ کہے کہ

“تمہارے رونے سے تنگی ہوتی ہے،

تم روتی ہو تو بیزاری ہوتی ہے،

دل کرتا ہے کہ تم سے بہت دور چلا جاؤں!”

اور میں اس کی دوری کے ڈر سے

سارے آنسو پی جاؤں، اپنی سسکیاں دبا لوں۔

بلکہ کوئی تو ایسا ہو جو اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا چہرہ اٹھا کر کہے:

“میں جانتا ہوں کہ تم بہت تھک گئی ہو،

تم رونا چاہتی ہو۔

میری آغوش سے بہتر جگہ اور کیا ہو سکتی ہے؟

آؤ، میرے گلے لگ کر دل کھول کر رو لو،

وہ سارے آنسو بہا دو، جن میں تم پل پل ڈوب رہی ہو!”

پھر میں دوڑ کر اس سے لپٹ جاؤں،

اس کے سینے سے لگ جاؤں،

بہت روؤں، چیخ چیخ کر روؤں،

اپنے دل کی ساری تھکن اتار دوں۔

پھر چل پڑوں درد کے راستے پر، نئے غموں کو سمیٹنے…

مگر یہاں… مگر یہاں…

اپنی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے۔

خوش رہیں

 خوشیاں بانٹتے رہیں

پڑھنے والی آنکھ مسکرائے

🥀🍁🌹

Loading