اپنے والدین کی قدر کریں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کل صبح جب نائی کے پاس داڑھی کا خط بنوانے گیا تو کرسی پر بیٹھتے ہی جو “خوشخبری” اس نے سنائی وہ میری داڑھی میں سفید بالوں کی نشاندہی تھی ، جب بغور آئینہ میں دیکھا تو واقعی دس پندرہ سفید بال واضح دکھائی دے رہے تھے . اور مزے کی بات یہ کہ ایک ہفتہ قبل تک ان کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا .
نائی نے بتایا کہ بعض اوقات پریشانی اور فکر میں بھی داڑھی کے بال سفید ہوجاتے ہیں. خیر وہاں سے تو اٹھ کر آگیا پر جو بات کل سے پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ بذات خود میں تنہائ پسند انسان ہوں گھر سے باہر بھی اکیلا ہی رہا کبھی کوئی مشکل نہیں ہوئی پر اب گزشتہ کچھ روز سے گھر کی ذمہ داری میرے سر ہے . امی ابو دراصل دادا جان کی وفات کے بعد سے ابھی تک گاؤں میں ہی ہیں لہٰذا چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمے داری مجھ پر ہے . مجھے یاد ہے کہ بعض اوقات ابو کے ساتھ ہنسی مذاق کے دوران کہ دیتا ہوں ” ابو جی آپ بہت ڈرپوک ہوگئے ہو ” وجہ یہی کہ رات کو اٹھ کر گھر کا چکر لگاتے گھر کے پچھلی طرف لگی باڑھ کو ہر دوسرے دن چیک کرتے ہیں کہیں سے اندر آنے کا راستہ تو نہیں بنا ہوا .
اس کے علاوہ بھی گیٹ ہو یا کھڑکیوں پر لگی grill ہر چیز کو مضبوط رکھتے ہیں . خیر سے کراچی میں دشمن اور دوست نما دشمن کثیر تعداد میں بنائے ہوئے ہیں لہٰذا یہ سب کام کرنا کچھ حد تک ضروری بھی ہیں . پر اب زندگی میں پہلی بار مجھ پر ذمے داری پڑی ہے تو چودہ طبق روشن ہوئے پڑے ہیں . رات ویسے ہی جاگنے کی عادت ہے پر اب اگر ذرا سی بھی غیر مانوس آواز سنائی دے تو فوری باھر بھاگتا ہوں کہیں کوئی اندر تو نہیں آیا ہوا . حتیٰ کہ گزشتہ روز چھت پر بلیاں لڑنے لگی وقت کوئی فجر کے بعد کا تھا اور بمشکل پندرہ منٹ ہوئے تھے سوئے ہوئے اور میں آدھی نیند میں ہی اٹھ کر باھر کی جانب بھاگا اور سر دروازے سے ٹکرا گیا .
بھائی گھر سے باہر نا رہیں ، لڑائی نا کریں ، چھوٹی بہن کو کسی شے کی ضرورت تو نہیں ، آج کیا پکائیں گے ؟ کیا لے کر آؤں کس کو کیا پسند اور کس کو کھانے میں کیا نہیں پسند ، رات میں بارش ہو یا ٹھنڈ تین بار اٹھ کر تمام دروازے اور گھر کا پچھلا ویران حصّہ چیک کرنا ان سب کاموں نے پانچ روز میں ہی سخت ذہنی تناؤ کا شکار کردیا ہے .
اب مجھے افسوس ہوتا ہے خود پر کہ جب جب میں نے ابو جی کو ڈرپوک یا پھر جلدی بال سفید اور غائب ہوجانے کا کہتا ہوں گا تو وہ دل میں شاید سوچتے تو ہوں گے کہ ان میں سے آدھے کی وجہ تو وہ پریشانیاں ہیں جو میری طرف سے انہیں دی گئی ہیں .
پر ہم یہ سب اس وقت تک نہیں سمجھتے جب تک ہم خود صاحب اولاد نہیں ہوجاتے ، پر پھر کیا فائدہ سمجھنے کا ؟ سر پر آن پڑے تو بکری بھی شیر سے لڑ جاتی ہے پر کیا بطور اولاد ہم اپنے والدین کی فکر سمجھ پاتے ہیں ؟ رات چار بجے گھر داخل ہوتے ہوئے جب امی گیٹ پر ہی انتظار کرتی ہوئی ملتی ہیں تو ان پر بہت غصّہ ہوتا ہوں کہ کیا ضرورت ہے اتنی دیر تک جاگنے کی ؟
میں کوئی بچہ تھوڑی نا ہوں پر امی جی تب بھی آگے سے بس مسکرا دیتی ہیں اور کل جب چھوٹا بھائی رات 8 بجے ایک پروگرام میں جانے کی اجازت مانگ رہا تھا تو سختی سے منع کردیا کہ کوئی ضرورت نہیں اتنی رات کو باھر جانے کی . شاید یہی ہوتا ہے احساس ذمہ داری جو ہمارے والدین کو وقت سے قبل ہی بوڑھا ، بیمار اور کمزور کردیتا ہے اور ہم اپنے والدین کو پرانے خیالات والا ، ہمیں نا سمجھنے والا ، ہم پر بے جا پابندیاں لگانے والے ظالم لوگ سمجھ لیتے ہیں .
اپنے والدین کی قدر کریں یہ انہی کا حوصلہ ہے جو انھوں نے ہمیں پالا اور اس قابل بنایا کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں وگر نہ ہم تو بس ….
الله پاک ہمارے والدین کو سلامت رکھیں اور جو بھی اس عظیم نعمت سے محروم ہو چکے ہیں ان کے والدین کی آخرت سنوار دیں ، بے شک الله کی گئی امانت کا انھوں نے بھرپور خیال رکھا … آمین