Daily Roshni News

اہرامِ مصر: ایک نہ ختم ہونے والا راز

اہرامِ مصر: ایک نہ ختم ہونے والا راز

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آج بھی مصر کے عظیم اہرام دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص، ادارہ یا سائنس دان یہ دعویٰ کرے کہ وہ ان کی تعمیر کے تمام راز جانتا ہے، تو وہ سچ نہیں کہہ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آج تک یہ نہیں جان سکے کہ یہ حیرت انگیز ڈھانچے کیسے وجود میں آئے۔ ہم واقعی نہیں جانتے۔ اہرام اپنے اندر ایسے بے شمار اسرار سمیٹے ہوئے ہیں جو انسانی فہم سے بالاتر ہیں۔

پہلا اور سب سے بڑا راز ان کا حجم ہے۔ یہ اتنے وسیع اور بھاری ہیں کہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف ایک اہرام کا وزن تقریباً 60 لاکھ ٹن ہے۔ ہم نے یہ وزن نہیں تولا، بلکہ اس کا تخمینہ اس کے حجم سے لگایا گیا ہے، اور یہ کسی صورت اس سے کم نہیں ہو سکتا۔ ایک اہرام زمین پر 13 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، اور اس کی چوڑائی ہر سمت سے 759.9 فٹ ہے۔ حیرت انگیز طور پر، یہ پیمائش ہر جانب بالکل یکساں ہے۔ زمین سے اس کی نوک تک اونچائی تقریباً 481 فٹ ہے۔

ان کی تعمیر میں ہزاروں پتھروں کے بلاکس استعمال کیے گئے، جو ہماری عام اینٹوں سے کئی گنا بڑے اور بھاری ہیں۔ لیکن ان کی صرف جسامت ہی اہم نہیں، بلکہ ان میں کئی سائنسی راز بھی پوشیدہ ہیں۔ اہرام کا زاویہ، اس کا رخ، اور اس کا ڈیزائن سب کچھ ہمارے کرہ ارض کی خاص ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔

آج کے دور میں بھی کوئی ایسا ماہر تعمیرات نظر نہیں آتا جو اتنے بھاری پتھروں سے اتنی بلند، متوازن اور سائنسی اصولوں پر مبنی عمارت تعمیر کر سکے، جس کا رخ بالکل شمال کی طرف ہو۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدیم مصریوں نے ایسا کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ شاید وہ صرف کوئی عمارت نہیں بنا رہے تھے، بلکہ وہ زمین کے ساتھ ایک گہرا ربط قائم کر رہے تھے، جس کا زاویہ ایک خاص سمت میں متعین تھا۔

ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اہرام کی اونچائی کو 43,200 سے ضرب دیں، تو آپ کو زمین کا نصف قطر (radius) حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر 43,200 کو اہرام کے احاطے (perimeter) سے ضرب دیں، تو زمین کا خطِ استوا (equatorial circumference) حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اہرام بنانے والوں کو نہ صرف زمین کے حجم کا اندازہ تھا، بلکہ وہ اس کے ماپنے کے پیچیدہ اصولوں سے بھی واقف تھے۔

یہ سب کچھ اس دور میں ہوا جسے ہم عموماً “تاریک دور” کہتے ہیں۔ ایک ایسا زمانہ جب انسان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ زمین کیا ہے، خطِ استوا کیا ہوتا ہے، یا زمین کا قطر کتنا ہے۔ لیکن اہرام کی تعمیر بتاتی ہے کہ اس دور میں ایک نہایت ترقی یافتہ تہذیب موجود تھی، جو اعداد و شمار، زمین کی ساخت، اور فلکیات سے گہری واقفیت رکھتی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ 43,200 کا عدد اتنا اہم کیوں ہے؟ دراصل زمین اپنے محور پر ہر 72 سال میں ایک ڈگری جھکتی ہے (جسے wobble کہتے ہیں)، اور اگر آپ 72 کو 600 سے ضرب دیں، تو یہی عدد حاصل ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہرام بنانے والوں کو زمین کی حرکات کا بھی علم تھا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک دانائی سے بھرپور کام ہے۔

یہ سب جان کر ہم صرف ایک نتیجہ نکال سکتے ہیں: اہرامِ مصر ایک ایسی شاندار اور گمشدہ تہذیب کی کہانی سناتے ہیں، جس نے اپنے علم، سائنس اور فنِ تعمیر کو اس انداز میں سمیٹا کہ ہزاروں سال بعد بھی ہم حیران ہیں۔

Loading