Daily Roshni News

ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب۔۔۔ مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب

مکمل کتاب : خطباتِ لاہور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

انتخاب  : نسرین اختر عظیمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ایوانِ اقبال میں پہلی سیرت کانفرنس سے خطاب۔۔۔ مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی)ایوانِ اقبال لاہور میں مارچ ۲۰۰۴ء کو مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام ایک سیرت کانفرنس بعنوان “اُسوۂِ حسَنہ سے معاشرہ میں راہنمائی ” کا انعقاد کیا گیا اس کا گذشتہ سے پیوستہ  آخری حصہ

خیال آنے کا کیا مطلب ہے ؟

اب میں آپ سے بولتا ہوں…. میں کس طرح بولتا ہوں؟

اگر میری آواز آپ کے کانوں میں جاکے آپ کے دماغ سے ٹکرائے اور اس کا مفہوم نہ دے تو آپ میری بات سمجھیں گے ؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ میری کوئی آواز سنتے ہیں․․․․․ تو میں آپ کے دماغ کے اَندر گھس کر بول رہا ہوں ․․․․․

خیالات کا ایک نظام ہے اللہ کا ․․․․․․ انتقالِ خیال ہے سب…. اور انتقال خیال کا مطلب ہے۔ ہر چیز بول رہی ہے۔ آدمی بھی بول رہا ہے۔ بکری بھی بول رہی ہے۔ ہاتھی بھی بول رہا ہے اور ․․․․جڑی بوٹیاں بھی بول رہی ہیں۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ (سورۃ لقمان – 12)

لقمان کو جب حکمت دی گئی تو جڑی بوٹیاں بولتی تھیں کہ میرے اَندر یہ وصف ہے۔ میرے اَندر یہ وصف ہے ․․․․․ میرے اَندر یہ وصف ہے۔

آج جتنی سائنس کی ایجادات ہیں، جس چیز میں بھی ایجاد ہو رہی ہے۔ آپ یہ کہتے ہیں کہ سائنسدان کو خیال آیا۔ اس خیال کی اس نے پیروی کی۔ اس لئے وہ ایجاد ہوئی۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے، یہ جو چیز ایجاد ہونے والی ہے ․․․․․ وہ خود کہہ رہی ہے کہ میرے اَندر یہ خصوصیت ہے۔ اگرتم نے میرے اَندر تفکر کیا، غور کیا ․․․․․ تو میرا جب مظہر بنے گا تو میرے اَندر یہ صلاحیت ہوگی۔

ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کر رہی ہے….

ہر چیز بڑھ رہی ہے….

ہر چیز پیدا ہورہی ہے…. اور پیدا ہو کر بڑھ رہی ہے….

ہر چیز گھٹ رہی ہے….

ہر چیز مر رہی ہے….

ہر چیز جوان ہو رہی ہے….

کیا بھینس بوڑھی نہیں ہوتی ؟

انسان ہی بوڑھا ہوتاہے؟

کیا درخت بوڑھا نہیں ہوتا؟

کیا بکری بوڑھی نہیں ہوتی؟

ایک ہی نظام ہے ․․․․․ لیکن ․․․․․ اس نظام میں فعال رکن جو ہے وہ انسان ہے…. ہر چیز اس کے لئے مسخر ہے….

اور کیوں وہ فعال رکن ہے ؟

کیوں حاکم ہے؟

کیوں حکمران ہے ؟

کیوں ہر چیز اس کیلئے مسخر ہے ؟

وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ …. (سورۃ الجاثیۃ – 13)

کیوں مسخر ہیں؟ ․․․․

اسلئے مسخر ہیں کہ…. آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ کا علم الأساسء سکھا دیا ہے….

جب انسان اِن عو.م کی طرف مُتوجّہ ہوتا ہے ․․․․․ تو اسے کیا کرنا ہوگا؟

کیا کرنا ہوگا بھئی؟ ․․․․․

ہاں رُوح سے واقف ہونا پڑے گا….

آدمؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے علم الأسماء سکھائے ․․․․․ وہ ہمارا مادّی وُجود تھا یا رُوح تھی ؟․․․․․

رُوح تھی….

کیوں بھئی ؟ ․․․․․ ہاں ․․․․․ وہ رُوح ہی تھی….

جب آدم جنّت میں رہے تو وہاں ․․․․․ آدم ؑ کی رُوح تھی ․․․․․ یا جسمانی لباس تھا؟

ہاں رُوح ہی تھی…. بات اب پوری ہوگئی….

اُسوۂِ حسنہ رسول اللہ ﷺ یہ ہے کہ:

انسان اپنی اصل سے واقف ہو….

جب انسان اپنی اصل سے واقف ہوگا تو اس کا اللہ سے ایک ربط قائم ہوگا۔

ایک تعلق قائم ہوگا…. وہ اللہ کو دیکھے گا ․․․․․ اللہ کو جانے گا ․․․․․ اللہ کی آواز سنے گا․․․․․ اللہ سے عرض و معروضات پیش کرے گا․․․․․ معاشرہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا….

مختصر یہ ہے کہ اسوۂ حسنہ کی تعریف میری دانست میں یہ ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ جو کچھ کرتے تھے ․․․․․ جو کچھ فرماتے تھے، وہ ․․․․․ اللہ کے چاہنے سے کرتے تھے اور ․․․․ اللہ کے چاہنے سے فرماتے تھے….

جب ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو اپنا لیں گے تو ․․․․․ ہماری بھی یہی حیثیت ہوگی کہ ہم اللہ کو چاہیں گے ․․․․․ اللہ کو دیکھیں گے ․․․․․ اور اللہ سے ہمارا رابطہ اور تعلق قائم ہوجائے گا….

آپ سب حضرات کا بہت بہت شکریہ…. اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو…. السّلام علیکم !

انتخاب  : نسرین اختر عظیمی

Loading