ایک مشہور مؤرخ اور سیاح نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک مشہور مؤرخ اور سیاح نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ جب سکندر اعظم آدھی دنیا فتح کرتا ہوا پنجاب کی حدود میں داخل ہوا تو دونوں فوجیں دریائے جہلم کے دونوں کنارے پر آمنے سامنے خیمہ زن ہوئیں
دونوں لشکروں کے اہلچیوں کا تبادلہ ہوا لیکن کوئ بات نہ بن سکی چنانچہ جنگ لازم ٹھہری
اور جنگ کے اصول طے کرنے کا مرحلہ ایا تو پنجاب کے لشکر نے صرف یہی ایک شرط رکھی کہ جب تک پنجاب سے ساگ کا سیزن ختم نہیں ہو جاتا تب تک جنگ نہ لڑی جائے اس دوران یونانی لشکر بھی کچھ آرام کر لے اور ہم بھی ساگ سے توانائی حاصل کر لیں
چنانچہ سفر سے تھکی ہاری یونانی فوج دریاے جہلم کے اُس پار اور پنجاب کا لشکر اِس پار خیمہ زن ہو گیا
دن گزرتے گیئے جب بھی سکندری لشکر کا قاصد جنگ کا پیغام لاتا تو جواب میں اسے ساگ کا ڈبہ تھما دیا جاتا کہ دیکھو ابھی ساگ ختم نہیں ہوا ہے لہذا طے کردہ اصول کے مطاطق جنگ نہیں لڑی جا سکتی
کئی مہینے گزر گئے لیکن ساگ ختم نہیں ہوا دوسری طرف جب یونانی لشکر جائزہ لیتا تو دریا کے دوسری طرف مسلسل آگ جلتی دکھائی دیتی دیگیں چولہے پر چڑھی دکھائی دیتیں
سکندر نے اپنے جاسوسوں سے ساگ کے بارے میں معلومات حاصل کی کہ اخر یہ ساگ ختم ہو گا جس پر جاسوسوں نے بتایا کہ جناب پنجاب میں ساگ سب سے پہلے سندھ سے متصل کے علاقے سے شروع ہوتا ہے اور ڈیڈھ مہینہ تک ساگ کا عروج رہتا ہے جیسے ہی مغربی پنجاب میں ساگ اپنے اختتامی مراحل میں پہنچتا ہے تو وسطی پنجاب سے ساگ کی سپلائی شروع ہو جاتی ہے اس طرح مہینہ دو مہینے یہ ساگ نکال جاتا ہے
جیسے ہی وسطی پنجاب سے ساگ کا خاتمہ ہوتا ہے تو مشرقی پنجاب سے لشکر کو ساگ کی کمک پہنچ جاتی ہے اور اس طرح مزید مہینہ ڈیڈھ مہینہ لگ جاتا ہے لیکن جب مشرقی پنجاب کے اخری علاقوں میں ساگ اپنے اختتامی مراحل میں ہوتا ہے تو یہ لوگ ساگ کو محفوظ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگلے دو مہینے تک مزید ساگ کھاتے ہیں
سکندر نے حیرت سے اپنے جاسوس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ ابھی ساگ مزید کتنی دیر چلے گا ؟؟؟
جس پر مصاحب نے جواب دیا کہ مزید تین مہینے ساگ کا عروج رہے
سکندر نے ایک لمبی سانس لی اور کرسی سے ٹیک لگاتے ہوے پوچھا کہ کیا تین مہینے بعد ساگ ختم ہو جاے گا
جی حضور جاسوس بلکل نے جھٹ سے جواب دیا
سکندر نے جوش سے کہا تو پھر تیاری رکھو ہم تین مہینے بعد جنگ شروع کریں گے
اور مزید انتظار نہیں کریں گے اگر مجھے پتہ ہوتا کہ ساگ کیا بلا ہے تو کبھی ساگ کے بعد جنگ کرنے کی شرط قبول نہ کرتا
لیکن حضور ہم پھر بھی حملہ نہیں کر سکتے مصاحب نے ڈرتے ہوے بتایا
کیوں نہیں کر سکتے سکندر نے غصے سے مٹھیاں بھینچتے ہوے پوچھا
کیونکہ حضور پھر گرمیاں شروع ہو جائیں گی اور گرمیوں میں دریا جہلم میں بہت زیادہ پانی آ جاتا ہے اور دریا کی روانی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ دریا پار کرنا ممکن نہیں ہوتا اگر ہم نے اس دوران دریا پار کرنے کی جرات کی تو سارا لشکر دریا میں غرق ہو جاے گا اور کوئ بھی نہیں بچے گا
تو پانی کب اترے گا سکندر نے تلملاتے ہوے پوچھا
جناب پانی تو سردیاں شروع ہوتے ہی اترے گا
سکندر کے مشیر خاص نے جواب دیا
تو ٹھیک ہے ہم سردیاں شروع ہوتے ہی حملہ کریں گے اور مزید انتظار نہیں کریں گے سکندر نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا
لیکن حضور ہم ایسا نہیں کر سکتے وزیر با تدبیر نے سکندر سے مخاطب ہوتے ہوے کہا
کیوں نہیں کر سکتے سکندر نے غصے سے جھنجلاتے ہوے پوچھا
کیونکہ حضور سردیاں شروع ہوتے ہی پھر ساگ کا موسم شروع ہو جاے گا اور یہ لوگ پھر ساگ کھا رہے ہوں گے
اگر ہم نے معاہدے کی رو سے ان پر ساگ کے موسم میں حملہ کیا تو دنیا کی تاریخ اپ کو بزدل اور دغاباز کے طور پر یاد کرے گی کہ سکندر ایک بزدل ادمی تھا جس نے معاہدہ کرنے کے باوجود معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے دشمن پر دھوکے سے حملہ کیا
جس پر سکندر ء اعظم چیختے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھا اور ٹانگ مار کر کرسی کو پرے گرایا اپنے ہاتھوں پر دندیاں وڈی
اور بھاگ کر ایک ٹیلے پر کھڑا ہو گیا اور اپنی فوج کو اونچی اواز میں حکم دیا
پین یکو اج دی رات ای اپنے ٹینٹ پٹو تے واپس مڑیئے
اوے قاصدا جا بھج کے انہاں دا ساگ والا ڈبہ وی واپس کر کے آ فیر آکھن گے کہ سکندر چور سی تے ساڈا ساگ والا ڈبہ نال ای لے گیا