Daily Roshni News

بابا بھلے شاہ ؒ۔۔آپ ؒ کی سیرت اور شاعری۔۔۔

بابا بھلے شاہ ؒ

آپ ؒ  کی  سیرت اور شاعری۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل۔۔۔۔بابا بھلے شاہ)بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کا تذکرہ آتے ہی ذہن ان لا تعد

اد اولیائے کرام اور علمائے عظام کی طرف از خود منتقل ہو جاتا ہے جنہوں نے شب و روز جد و جہد کر کے اس وسیع و عریض سر

 زمین میں وحدانیت کی روشنی پھیلائی۔

 ان ہستیوں میں صوفی بزرگ حضرت بابا بلھے شاہ کا نام بھی بہت نمایاں اور خوب روشن ہے۔ بابا بلھے شاہ نے جس بہادری کے ساتھ ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ان کا یہ کردار ہمارے تہذیبی، ثقافتی وسیاسی ماضی کی قابل ستائش مثال ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ ایسی روحانی اسلامی و آفاقی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی منفرد اسلوب کی صوفیانہ شاعری کی وجہ سے شہرت دوام پائی ہے تقریباً پونے تین سو سال بعد آج بھی ان کی شاعری اور فرمودات مشعل راہ ہیں۔

حضرت بلھے شاہ کی ولادت 1680ء بمطابق 1091 ہجری میں بہاولپور کے علاقے اوچ گیلانیاں میں ہوئی۔ والدین نے اپنے لخت جگر کا نام عبد اللہ شاہ رکھا۔ حضرت بلھے شاہ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی حضرت سید سخی شاہ محمد تھا۔ آپ ایک درویش صفت ممتاز عالم دین تھے۔ بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ مسجد کوٹ قصور میں حافظ غلام مرتضیٰ کے پاس بھیجے گئے، قصور میں اس زمانے میں جامع مسجد کے خطیب مولانا حافظ غلام مرتضیٰ کے درس کا بڑا چرچا تھا۔ عبد اللہ شاہ نے ان کی درسگاہ سے مروجہ علوم حاصل کیے۔ روایتی درسی تعلیم حضرت بلھے شاہ کو مطمئن نہ کر سکی۔ عبد اللہ شاہ کی نگاہ بصیرت حقیقت کی متلاشی تھی اور آپ کسی ایسے مرشد کا دامن تھامنا چاہتے تھے ، جو توحید کی لے سے انہیں سر شار کر دیتا۔ ایک دن اسی جستجو میں ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے تھے کہ اونگھ آگئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے جدامجد حضرت سید عبدالحکیم خواب میں آئے انہوں نے اس دور کی ایک ممتاز ہستی مولوی عنایت قادری کے پاس جانے کی ہدایت کی ۔ آپ نے گھر واپس جا کر اپنے والد صاحب سے اس بات کا ذکر کیا اور محمد عنایت قادری صاحب کے ہاتھ بیعت کرنے کی اجازت طلب کی۔ والد صاحب نے اجازت دی۔ اس زمانے میں حضرت شاہ عنایت قادری لاہور بھائی دروازے میں اونچی مسجد کے پیش امام تھے۔ وہیں پر درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری کیا ہوا تھا۔ حضرت شاہ عنایت قادری کے زہد و تقویٰ کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ قلبی اور روحانی سکون کے طالب آپ سے فیض پاتے تھے ۔ بلھے شاہ حضرت عنایت قادری کے پاس پہنچے ، اپنا مدعا بیان کیا، مولوی صاحب نے بلھے شاہ صاحب کو چند امتحانات سے گزار کر ، بیعت کر لیا۔ بیعت کے بعد مرشد نے آپ کو حکم دیا کہ وہ ریاضت و مجاہدہ کریں ۔ آپ نے بسر و چشم اس ارشاد کی تعمیل کی اور دریائے چناب کے نواح میں یاد الہی اور وظائف میں مصروف رہنے لگے ۔ تزکیہ نفس سے آپ کے قلب و نظر کو جلا ملی۔ حضرت بابا بلھے شاہ ابتدائی جوانی میں ہی شاہ عنایت کے حلقہ مریدی میں شامل ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ تیس برس تک اپنے مرشد کی خدمت میں رہے اور صوفیانہ زندگی کے مراحل ان کی حضوری میں طے کئے۔ حضرت شاہ عنایت کا انتقال 1728 میں ہوا۔ اس کے بعد حضرت بابا بلھے شاہ قصور آگئے اور شہر سے باہر ایک تالاب کے کنارے انہوں نے اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ بہت سے لوگ ان کی صوفیانہ زندگی سے متاثر ہو کر ان کے مرید بن گئے۔ حضرت بابا بلھے شاہ صوفی ہونے کے علاوہ پنجابی زبان کے عظیم المرتبت شاعر بھی تھے۔ ایک طرف ان کی ذات فیوض و برکات کا سر چشمہ تھی تو دوسری طرف ان کی شاعری اپنے اندر اثر اور سوزو گداز کا ایک خزانہ لیے ہوئے تھی، ان کا شعر روح کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور دل کی پہنائیوں میں اتر جاتاہے۔ ان کے پر اثر کلام سے پنجاب کے گاؤں ، قصبےاور شہر گونج اُٹھے۔ بلھے شاہ کے کلام کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی اکتساب فیض کرتا ہے اور ناخواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار میں روحانی لذت محسوس کرتا ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ نے پنجابی شاعری کو منفرد اسلوب دے کر لوگوں کو حق سچ پر قائم رہنے کا حوصلہ دینے کے ساتھ اپنے دور کی بعض غلط روایات کے تدارک کی کوششیں کیں۔

حضرت بلھے شاہ ایک عوامی اور عام فہم شاعر ہیں جن کے انداز بیاں کی سچائی، سادگی، سلاست، روانی اور بے ساختگی واضح ہے۔ ان کی شاعری ہر ایک کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ وہ ایک نڈر اور بے باک شاعر ہیں۔ ان کے کلام کا مقصد عشق الہی، امن، انسانیت ،

محبت اور آزادی ہے۔ بابا بلھے شاہ کے چند اشعار پیش ہیں رب من کے اندر بستا ہے: رب رب کر دے بڈھے ہو گئے، ملاں پنڈت سارے رب دا کھوج کھرا نہ لبھا، سجدے کر کرہارے رب تے تیرے اندر وسدا، وچ قرآن اشارے بلھے شاہ ! رب اس نوں ملی جیہڑا اپنے نفس نوں مارے بقول بلھے شاہ رب انسان کے اندر بستا ہے لیکن اندر لینے کے باوجود ہر کسی کو نہیں ملتا، رب صرف انہیں ملتا ہے جو اپنا نفس مار لیتے ہیں۔ نفس کا روح سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور روح امر ربی ہے یعنی روح میں خالق حقیقی کے نور کی کرن موجود ہوتی ہے جو نفس کی کثافت تلے دب جاتی ہے۔ اگر کوشش کر کے اوپر سے نفس کی کثافت صاف کر دیں تو روح کے آئینے میں نور الہی کی روشنی نظر آنے لگتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: مسجد ڈھا دے، مندر ڈھادے ، ڈھا دے جو کچھ دسدا ایک بندے کا دل نہ ڈھائن ، کیونکہ رب دل وچ رہندا

انسان کا اصل باطن ہے: صوفیاء کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ ظاہری و باطنی تمام علم انسان کے اپنے باطن میں موجود ہے۔ صوفیاء انسان کو اپنے باطن کے کھوجنے پر پر زور دیتے ہیں۔ بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نہیں

جا جا وڑدا مسجداں مندراں اندر

 کدی اپنڑے اندر توں وڑیا ای نہیں

( تم کتابیں پڑھ کر عالم اور فاضل کہلاتے ہو مگر اپنے من کی دنیا کا مطالعہ نہیں کرتے ہو ۔ تم کبھی مسجد اور کبھی مندر جاتے ہو مگر کبھی اپنے من کی دنیا میں داخل نہیں ہوئے)۔ من کی آواز : بابا بلھے شاہ نے انسان کو اس کے باطن یعنی من ہو سے آنے والی آواز پر متوجہ کیا ہے، فرمایا کہ

جس پاریا بھید قلندر دا

راہ کھوجیا اپنے اندر وا

جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی ہے

 مونہہ آئی بات نہ رہندی ہے

ایہہ تمکن ، بازی ویرا اے

 تھم تھم کے ٹرو اندھیرا اے

 وڑ اندر دیکھو کیہڑا اے

 کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے

 منہ آئی بات نہ رہندی اے

 حضرت بلھے شاہ کے مطابق جس نے راز حق پای جیتے جیسے دوئی کا کہا کرومیه ں وچ رہندا راہ باطن تلاش کر کے ہی پایا اور جس نے یہ راز پا لیا وہ آخر سکونِ حقیقی کا حقدار بن گیا۔ جس نے اپنے باطن ی و باطنی اپنی روح کو پالیاوہ گویا خوشی و غم، گناہ و ثواب، حیات وموت اور ہر طرح کے رازوں سے واقف ہو گیاہیں۔

من اندر جوگ جگا لے توں

 یاری نال سجن دے لائے توں

 ایہو راہ ہے رب نو ، پاون دا

 سکھ  چج کوئی یار مناون دا

گم اپنے آپ چ ہو جا توں

 اونوں لبنا ای تے خود کھو جا توں

 چھڈ وہم خیال دوڑاون دا

سکھ چج کوئی یار مناون دا

 عشق و عرفان

 بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں عشق میں دوئی نہیں ہوتی ہے عشق میں وحدت ہوتی ہے۔ عشق میں، میں نہیں من ہوتا۔ صرف تو ہوتا ہے۔ ہر طرف تو ہی تو ۔ عاشق کو ہر طرف، ہر نظارے میں اپنا معشوق کبھی ہی نظر آتا ہے۔

 رانجھا رانجھا! کردی، ہن میں آپے رانجھا ہوئی سرو مینوں دھیدو رانجھا، ہیر نہ آکھو کوئی رانجھا ئیں وچ، میں رانمجھے وچ، غیر خیال نہ کوئی میں نہیں، اوہ آپ ہے ، اپنی آپ کرے دلجوئی (ہیر کہتی ہے کہ “رانجھے (اپنے معشوق) کا نام جیتے جیتے اب میں خودرانجھے جیسی ہو گئی ہوں۔ یعنی لگایا جا کر لالہ دوئی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ لوگو! تم بھی اب مجھے رانجھے کی پر چھائیں یا سایہ کہا کرو میر انام پکارنے کی ضرورت نہیں …. میرا محبوب مجھ میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ظاہر ریا کاری  دکھلاو مجھے ہر طرف صرف اسی کے جلوے نظر آتے ہیں، مجھے اور کوئی خیال ہی نہیں آتا …. مجھ میں اب میرا کچھ باقی نہیں رہا، مجھے دیکھنے والوں کو بھی میرے اندر میرا محبوب ہی دکھائی دیتا ہے….) تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا تیرے عشق نے ڈیرا، میرے اندر کہتا بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا جھبدے بوہریں وے طبیبا، نہیں تاں میں مر گئی تلاش مرشد وحدت دے دریا ر سیندے میری وحدت کتول دھائی مرشد کامل پیار لنگھایاں، باہمجھ تلے شہر بنائی (وحدت کے لہریں مارتے ہوئے وسیع دریا کو دیکھ کر میرے ہوش و ہو اس کھو گئے لیکن مرشد کامل نے مجھے اس سمندر سے پار کرا دیا پھر کرامات کےسلسلے چل نکلے ۔ ) بلھے شاہ جاگ بنا دُدھ نہیں جمندا پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے ۔ ( بلھے شاہ جب تک دودھ کو چھاچھ سے جامن نہ لگایا جائے دہی نہیں بنتا چاہے چولہے پر پڑا گرم ہو ہو کر لال ہو جائے۔ ایسے ہی کسی اہل نظر رہبر کے بغیر شخصیت مکمل نہیں ہو سکتی۔) ظاہر اور باطن کی طہارت: حضرت بلھے شاہ نے معاشرے میں خیانت اور ریاکاری کو اچھی طرح بھانپا اور اس کی نشاندہی کی ہے کہ دکھلاوے کی بندگی اور ریاکاری کی عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔ جھوٹ، فریب اور لالچ انسان کو حرص کے گڑھے میں لے جاتا ہے۔

 سسر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی

 لینا کی سسرٹوپی ترھ کے؟

تسبیح پھری پر دل نہ پھریا

لینا کی تسبیح ہتھ پھڑ کے

( نماز پڑھنے کو ٹوپی سر پر رکھتے ہو اور اپنی نیت نیک اعمال کے لیے صاف نہیں رکھتے۔ ایسے ٹوپی سر پر رکھنے کا کیا فائدہ۔ تم ہاتھ میں تسبیح پکڑ کے اس کے دانے پھیرتے رہتے ہو مگر تمھارا دل ہوس کا غلام ہے آزادی اور محبت سے روشناس کرایا۔ چل بلھیا، چل اوتھے چلیے جتھے سارے آنے نہ کوئی ساڈی ذات پچھانڑے نہ کوئی سانوں منے بابا بلھے شاہ کہتے ہیں کہ : چل بل یا ایسی جگہ چل کر رہتے ہیں جہاں سب گویا اندھے رہتے ہوں اور جہاں کوئی میری ذات نہ جانتا ہو ، اور نہ کوئی مجھے مانتا ہو“۔ لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے انہیں ان کے گردو پیش سے باخبر رکھنے، عملی اقدام کی ایسی تسبیح پھیرنے کا کیا نتیجہ )

 پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی

 ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی

 مکے مدینے گھم آریا تے نام رکھ لیا حاجی

او بلھیا حاصل کی کیتا ؟ جے توں رب نا کیتا راضی

 سب انسان برابر ہیں : حضرت بلھے شاہ نے فرقہ بندی، مذہبی تعصب، رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر قدرت کی پیدا کردہ مخلوق سے محبت کی ہے۔ بابا بلھے شاہ نے عشق کی فلاسفی سے انسانیت، تلقین کرنے سے بلھے شاہ کو ایک سماج مطلوب تھا۔ ایسا سماج جہاں لوگ باشعور اور باخبر ہوں۔ ایسا سماج جہاں جھوٹ ، غربت، افلاس منافقت، ریاکاری غریب اور نمود و نمائش کا نام تک نہ ہو ۔ بابا بلھے شاہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ سوائے رب کائنات کے ہر چیز کو فنا ہے۔ تم جو کرو گے وہی کاٹو گے ور نہ نامر اور ہو گے۔ تنہا کونج کی مانند آہیں بھرو گے، کیونکہ پروں کے بغیر تو اڑان ممکن نہیں۔ بلھے شاہ کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ سیکھنے کے لیے اور اللہ کی عبادت میں اخلاص کی تربیت کے لیے رہبر مرشد بہت ضروری ہے۔ بابا صاحب کہتے ہیں کہ دنیا میں بہت سنبھل کر چل کیونکہ اس راستے سے کسی نے دوبارہ نہیں گزرنا ہے۔ اب اٹھ کر عمل کا آغاز کر دو ، غفلت میں کہیں اس قیمتی وقت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھنا) نہ کر بند یا میری میری نہ تیری نہ میری چار دناں دا میلہ دُنیا فیرمٹی دی ڈھیری پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی مکے مدینے گھوم آریا تے نام رکھ لیا حاجی او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی بھلا صاحب نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے دوستی کبھی نا کرو جس کو خود پر بہت غرور ہو، والدین کو برابھلا مت کہو چاہے وہلاکھ غلطی پر ہوں۔ غلط راستوں میں مت چلو چاہے منزل کتنی ہی دور ہو۔ راہ چلتے کسی پر دیسی کو دل نہ دو چاہے وہ کتنا ہی حسین ہو۔ بلھے شاہ کہتے ہیں! محبت صرف وہاں پاؤ گے جہاں محبت نبھانے کا دستور ہو۔

بابا صاحب سوال اُٹھاتے ہیں کہ تم روز شیطان کے خلاف لڑتے ہو مگر کبھی اپنے نفس کی خواہشات کے خلاف بھی لڑائی کی ہے؟ بلھے شاہ ؟ تم گفتگو میں عالم بالا کی بات کرتے ہو مگر زمیں پر تمہارے اندر جو ایک طاقت ور نفس ہے اس کو پکڑ کر قید کرو تو ما نہیں۔)حضرت بابا بلھے شاہ کا وصال 1181 ہجری میں ہوا آپ کا مزار اقدس قصور میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ کا عرس ہر سال قصور میں ماہ اگست کے آواخر میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بلھے شاہ نے شاعری کا ایک ضخیم ورثہ چھوڑا ہے ۔ پنجابی کی تمام اہم اصناف کافی سی حرفی ، گنڈھاں ، اٹھوارے، دوہڑے اور بارہ ما ہے اُن کے کلام میں شامل ہیں۔ تین صدیاں گزر گئیں۔ بلھے شاہ آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ تو خود کہتے ہیں۔ بلھے شاہ اساں مرنانا ہیں گور پیا کوئی ہور “

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2019

Loading