Daily Roshni News

بابا بھلے شاہ ؒ۔۔۔(قسط نمبر1)

بابا بھلے شاہ ؒ۔

قسط نمبر1

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل۔۔۔۔بابا بھلے شاہؒ)بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کا تذکرہ آتے ہی ذہن ان لا تعداد اولیائے کرام اور علمائے عظام کی طرف از خود منتقل ہو جاتا ہے جنہوں نے شب و روز جد و جہد کر کے اس وسیع و عریض سر زمین میں وحدانیت کی روشنی پھیلائی۔

 ان ہستیوں میں صوفی بزرگ حضرت بابا بلھے شاہ ؒکا نام بھی بہت نمایاں اور خوب روشن ہے۔ بابا بلھے شاہ نے جس بہادری کے ساتھ ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ان کا یہ کردار ہمارے تہذیبی، ثقافتی وسیاسی ماضی کی قابل ستائش مثال ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ ایسی روحانی اسلامی و آفاقی شخصیت تھے جنہوں نے اپنی منفرد اسلوب کی صوفیانہ شاعری کی وجہ سے شہرت دوام پائی ہے تقریباً پونے تین سو سال بعد آج بھی ان کی شاعری اور فرمودات مشعل راہ ہیں۔

حضرت بلھے شاہؒ کی ولادت 1680ء بمطابق 1091 ہجری میں بہاولپور کے علاقے اوچ گیلانیاں میں ہوئی۔ والدین نے اپنے لخت جگر کا نام عبد اللہ شاہ رکھا۔ حضرت بلھے شاہ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی حضرت سید سخی شاہ محمد تھا۔ آپ ایک درویش صفت ممتاز عالم دین تھے۔ بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ مسجد کوٹ قصور میں حافظ غلام مرتضیٰ کے پاس بھیجے گئے، قصور میں اس زمانے میں جامع مسجد کے خطیب مولانا حافظ غلام مرتضیٰ کے درس کا بڑا چرچا تھا۔ عبد اللہ شاہ نے ان کی درسگاہ سے مروجہ علوم حاصل کیے۔ روایتی درسی تعلیم حضرت بلھے شاہ کو مطمئن نہ کر سکی۔ عبد اللہ شاہ کی نگاہ بصیرت حقیقت کی متلاشی تھی اور آپ کسی ایسے مرشد کا دامن تھامنا چاہتے تھے ، جو توحید کی لے سے انہیں سر شار کر دیتا۔ ایک دن اسی جستجو میں ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے تھے کہ اونگھ آگئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے جدامجد حضرت سید عبدالحکیم خواب میں آئے انہوں نے اس دور کی ایک ممتاز ہستی مولوی عنایت قادری کے پاس جانے کی ہدایت کی ۔ آپ نے گھر واپس جا کر اپنے والد صاحب سے اس بات کا ذکر کیا اور محمد عنایت قادری صاحب کے ہاتھ بیعت کرنے کی اجازت طلب کی۔ والد صاحب نے اجازت دی۔ اس زمانے میں حضرت شاہ عنایت قادری لاہور بھائی دروازے میں اونچی مسجد کے پیش امام تھے۔ وہیں پر درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری کیا ہوا تھا۔ حضرت شاہ عنایت قادری کے زہد و تقویٰ کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا ۔ قلبی اور روحانی سکون کے طالب آپ سے فیض پاتے تھے ۔ بلھے شاہ حضرت عنایت قادری کے پاس پہنچے ، اپنا مدعا بیان کیا، مولوی صاحب نے بلھے شاہ صاحب کو چند امتحانات سے گزار کر ، بیعت کر لیا۔ بیعت کے بعد مرشد نے آپ کو حکم دیا کہ وہ ریاضت و مجاہدہ کریں ۔ آپ نے بسر و چشم اس ارشاد کی تعمیل کی اور دریائے چناب کے نواح میں یاد الہی اور وظائف میں مصروف رہنے لگے ۔ تزکیہ نفس سے آپ کے قلب و نظر کو جلا ملی۔ حضرت بابا بلھے شاہ ابتدائی جوانی میں ہی شاہ عنایت کے حلقہ مریدی میں شامل ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ تیس برس تک اپنے مرشد کی خدمت میں رہے اور صوفیانہ زندگی کے مراحل ان کی حضوری میں طے کئے۔ حضرت شاہ عنایت کا انتقال 1728 میں ہوا۔ اس کے بعد حضرت بابا بلھے شاہ قصور آگئے اور شہر سے باہر ایک تالاب کے کنارے انہوں نے اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ بہت سے لوگ ان کی صوفیانہ زندگی سے متاثر ہو کر ان کے مرید بن گئے۔ حضرت بابا بلھے شاہ صوفی ہونے کے علاوہ پنجابی زبان کے عظیم المرتبت شاعر بھی تھے۔ ایک طرف ان کی ذات فیوض و برکات کا سر چشمہ تھی تو دوسری طرف ان کی شاعری اپنے اندر اثر اور سوزو گداز کا ایک خزانہ لیے ہوئے تھی، ان کا شعر روح کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور دل کی پہنائیوں میں اتر جاتاہے۔ ان کے پر اثر کلام سے پنجاب کے گاؤں ، قصبےاور شہر گونج اُٹھے۔ بلھے شاہ کے کلام کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی اکتساب فیض کرتا ہے اور ناخواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار میں روحانی لذت محسوس کرتا ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ نے پنجابی شاعری کو منفرد اسلوب دے کر لوگوں کو حق سچ پر قائم رہنے کا حوصلہ دینے کے ساتھ اپنے دور کی بعض غلط روایات کے تدارک کی کوششیں کیں۔

حضرت بلھے شاہ ایک عوامی اور عام فہم شاعر ہیں جن کے انداز بیاں کی سچائی، سادگی، سلاست، روانی اور بے ساختگی واضح ہے۔ ان کی شاعری ہر ایک کی سمجھ میں آجاتی ہے۔ وہ ایک نڈر اور بے باک شاعر ہیں۔ ان کے کلام کا مقصد عشق الہی، امن، انسانیت ،محبت اور آزادی ہے۔

بابا بلھے شاہ کے چند اشعار پیش ہیں

 رب من کے اندر بستا ہے:

 رب رب کر دے بڈھے ہو گئے، ملاں پنڈت سارے

 رب دا کھوج کھرا نہ لبھا، سجدے کر کرہارے

 رب تے تیرے اندر وسدا، وچ قرآن اشارے

 بلھے شاہ ! رب اس نوں ملی جیہڑا اپنے نفس نوں مارے

 بقول بلھے شاہ رب انسان کے اندر بستا ہے لیکن اندر لینے کے باوجود ہر کسی کو نہیں ملتا، رب صرف انہیں ملتا ہے جو اپنا نفس مار لیتے ہیں۔

نفس کا روح سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور روح امر ربی ہے یعنی روح میں خالق حقیقی کے نور کی کرن موجود ہوتی ہے جو نفس کی کثافت تلے دب جاتی ہے۔ اگر کوشش کر کے اوپر سے نفس کی کثافت صاف کر دیں تو روح کے آئینے میں نور الہی کی روشنی نظر آنے لگتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

مسجد ڈھا دے، مندر ڈھادے ، ڈھا دے جو کچھ دسدا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2019

Loading