Daily Roshni News

بابا تاج الدین ناگپوری رحمت اللہ علیہ

بابا تاج الدین ناگپوری رحمت اللہ علیہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اس قدیم تصویر میں ایک مسلمان مجذوب (بابا تاج الدین ناگپوریؒ) اور ایک ہندو راجہ (رگھو راؤ بھونسلے) ساتھ ہیں. گویا روح و جسم، عقل و لاشعور، طاقت و رحمدلی—سب حدیں مٹ گئی ہوں۔ یہ تصویر برصغیر کی اُس تہذیبی روایت کا مظہر ہے؛ جہاں صوفی خانقاہ اور شاہی دربار میں کوئی دیوار نہیں رہتی؛ صرف انسان اور اُس کی پیاسِ معرفت باقی رہتی ہے۔

تاج الدین ناگپوریؒ –

ولادت و نسب: 27 جنوری 1861ء، کامٹی (ناگپور). آپ سلسلۂ حسنی سے ہیں. “شہنشاہِ ہفت اقلیم” کے لقب سے مشہور ہوئے۔

کم عمری میں برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے۔ ڈیوٹی ختم ہوتی تو مزارِ حضرت داؤد مکیؒ پر گھنٹوں مراقب رہتے؛ آپ وردی سے رُوح اور رُوح سے کائنات تک ایک سانس میں جڑے رہتے۔

آرمی ڈسچارج اور مجذوبیت: تاج الدینؒ کو برطانوی فوج سے “نامناسب رویہ” کی وجہ سے فارغ کر دیا گیا۔ آپ مجذوبانہ کیفیت میں کئی میل پیدل چلتے۔ ان کے رُوحانی تجربات، بصیرت اور سماجی اصولوں کی نظراندازی کو “ذہنی بیماری” سمجھا گیا۔

باباؒ کے حوالے سے ایک مشہور واقعہ- تذکرۂ تاج الدین (مرتبہ: مولانا قاضی ابراہیم)؛ سوانح تاج العارفین (چشتی سلسلہ) اور ڈاکٹر ایم. ایم. ہیدرآبادی کی ملفوظات میں ہے؛ کہ :

تاج الدینؒ مجذوبانہ کیفیت میں بیخود، برہنہ باہر نکل جاتے، اس پر ایک برطانوی میم (خاتون) نے شکایت کر دی. اس شکایت اور انکوائری پر برطانوی حکومت نے اُنہیں ذہنی مریض قرار دے کر 1892ء میں ناگپور کے “Nagpur Lunatic Asylum/ پاگل خانہ” میں داخل کر دیا۔

آپ 16 سال (1892–1908) قید اور محدود رہے۔ اس ہسپتال کو آپ نے اپنی ریاضت اور الہیٰ مشن کے لئے چن لیا اور ہزاروں پیروکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ آپ کی رُوحانی بزرگی کے واقعات پھیلتے رہے۔

(یہ واقعہ صوفیانہ روایات میں “مجذوبانہ حالت” کے زُمرے میں آتا ہے، جس میں فقیر بظاہر عقل و شعور سے خالی مگر باطن میں ولایت کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔ شریعت کی ظاہری خلاف ورزی کے باوجود اُن کی نیت اور مقام کو اولیاء کی روایات میں مختلف زاویہ سے دیکھا جاتا ہے۔)

’’پاگل خانہ‘‘ میں کرامت:  باباؒ صاحب کے حوالہ سے مریضوں نے گواہی دینا شروع کردی کہ باباؒ کے پاس بیٹھتے ہی دل و دماغ کی گرہیں کھل جاتی ہیں۔ یہ جو کہتے ہیں، فوراً ہوجاتا ہے۔ یوں ہسپتال کا صحن شفا خانہ بنتا گیا۔ شہرت چہار سُو پھیل گئی۔ مریضوں کے ساتھ عوام بھی روزانہ یہاں آنا شروع ہوگئی۔

راجہ رگھو راؤ بھونسلے – بااثر حکمران کا رُوحانی انکسار

بھونسلہ خاندان کا یہ راجہ—جسے مرہٹہ انا پرستی اور محلّاتی آداب نے تربیت دی—جب پاگل خانہ’ پہنچا تو تاج الدینؒ کے رُوبرو اُس کی ساری راجدھانی جھک گئی۔

رہائی و عزتِ شاہانہ: برطانوی ریکارڈ کے مطابق ناگپور کے مہاراجہ راجہ رَگھو جی راؤ بھوسلے نے 9 جولائی 1908 کی صبح اپنے دربار میں مشاورت کے بعد تاج الدینؒ کی رہائی کی درخواست “گورنر سینٹرل پروونسز” کو بھیجی۔ 2 ہزار روپے بطور زرِ ضمانت جمع کروانے کے بعد 21 ستمبر 1908 کو سرکاری طور پر رہائی کا پروانہ جاری ہوا اور باباؒ کو 16 سال بعد پاگل خانہ’ سے نکال کر شکردرہ کی ’’لال کوٹھی‘‘ میں لایا گیا۔

’’شفا خانہ‘‘ کا تاریخی ریکارڈ: شکردرہ محل’ میں پہنچنے کے بعد ہزاروں زائرین روزانہ علاج و دُعا کے لئے ‘شاہی محل’ آنے لگے۔ سول سرجن کرنل رو اور ڈاکٹر عبدالمجید نے باباؒ کے “چیک اپ” کے لئے ایک عارضی میڈیکل کمرہ مختص کیا اور اپنی رپورٹس میں لکھا: ’’یہ ذہنی مریض نہیں بلکہ غیرمعمولی رُوحانی شخصیت‘‘ ہیں۔”

کچھ عرصہ بعد باباؒ جنگل میں واکی چلے گئے۔ یہاں اُنہوں نے ایک آم کے درخت کو ’’شفاخانہ‘‘ کا نام دیا: مریض اس درخت کے نیچے بیٹھتے، زَمین کی مٹّی بطور دوا لےجاتے، مریضوں کے شفایاب ہونے کے واقعات بہت زیادہ مشہور ہوئے۔

(سوانح اور برطانوی نوآبادیاتی ریکارڈ یہ بتاتے ہیں کہ رہائی 21 ستمبر 1908 کو ہوئی، زرِ ضمانت راجہ بھوسلے نے ادا کیا، اور کوئی باقاعدہ اسپتال ڈاکٹروں نے تعمیر نہیں کیا؛ ’’شفا خانے‘‘ کی نسبت باباؒ کے نام سے منسوب ایک رُوحانی جگہ تھی، جسے وہ خود چلاتے تھے اور جہاں روزانہ مختلف مذاہب کے سینکڑوں افراد شفا کے لئے آتے.)

راجہ نے باباؒ صاحب کو محل کا معزّز مہمان بنایا، ہاتھی کی سواری پیش کی گئی، سبز مخملی پوشاکیں بطور نذرانہ پیش ہوئیں۔ یہ سب اُس دور میں بین المذاہب ایثار کی درخشاں مثال ہے۔

گہری عقیدت: ایک روز باباؒ نے محل کے شاہی مندر میں رکھا “بت” زمین پر گرا دیا۔ محافظ لرز اٹھے، مگر راجہ نے کہا:

“باباؒ بھی دیوتا ہیں؛ دیوتاؤں کا معاملہ دیوتا ہی نمٹائیں گے!”

یہ جملہ راجہ کے رُوحانی فراخ حوصلہ کا پتہ دیتا ہے—جہاں عقیدت، عقیدہ سے بڑی اور رُوحانیت، مذہبی شناخت سے وسیع تر ہو جاتی ہے۔

رُوحانی مباحثہ – عقل و غیب کا امتزاج

شاہی دربار میں رُوحانی سوال و جواب، مشاہدات اور غیب کے قوانین پر مباحث بھی ہوتے۔ راجہ رگھو راؤ نے بابا تاج الدین ناگپوریؒ سے سوال کیا !

“بابا صاحبؒ! ایسی مخلوق جو نظر نہیں آتی، مثلاً فرشتہ یا جنات، خبر متواتر رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں، ان میں اس قسم کی مخلوق کے تذکرے ملتے ہیں۔ ہر مذہب میں رُوحوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے، لیکن عقلی اور علمی توجیہات نہ ہونے سے ذی‌فہم انسانوں کو سوچنا پڑتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ تجربات جو زبان زد ہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ آپ اس مسئلے پر کچھ ارشاد فرمائیں؟”

بابا تاج الدین ناگپوریؒ کا جواب :

بابا صاحب اس وقت لیٹے ہوئے تھے، نگاہ آسمان کی طرف تھی، آپ نے فرمایا  : ( جواب کو مختصراً اور تشریح کی کوشش کی ہے۔)

  1. آسمانی دنیاؤں کی شناخت ناقابلِ توضیح ہے۔۔۔

“ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن ماہ و انجم کی کون سی دنیاؤں سے روشناس ہیں، اس کی تشریح ہمارے بس میں نہیں؛ جو کچھ کہتے ہیں، قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔”

رُوحانی تشریح: یہاں صوفیانہ نقطہ نظر واضح ہوتا ہے۔ تجربات اور مشاہدات انسان کی فطری حدود سے کہیں زیادہ ہیں۔ جو چیزیں ہم سنتے یا مشاہدہ کرتے ہیں وہ اکثر قیاس آرائیوں پر مبنی ہوتی ہیں، ٹھوس سائنسی ثبوت پر نہیں؟

  1. انسان کا علم محدود ہے…

“جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے، تو یہ نہیں سوچتے کہ اس دعوےٰ کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔”

رُوحانی نکات: خود آگہی کا سبق ہے۔ ہم علم سے مبالغہ کر جاتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ہماری سمجھ اور فہم انتہائی محدود ہوتی ہے۔

  1. روزمرہ کے مشاہدات بھی پوشیدہ راز رکھتے ہیں۔۔۔

مثال کے طور پر؛ دن کے طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔ دن رات کیا ہیں؟ ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ یہ ‘تجربہ’ ہے—دن ہے، رات آتی ہے۔

تشریح: یہاں تاج الدینؒ سائنس اور فلسفہ سے قریب ہیں. ہمیں دن اور رات جیسے عام مظاہر’ بھی پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آتے۔ یہ ہمیں حیرت اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔۔۔

#Kamaluddin Roohani Digest Online Roohani Digest Qalandar Shaoor Monthly

Loading