بابا کی تعریف
تحریر۔۔۔اشفاق احمد
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بابا کی تعریف۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد )تعلق محسوس کیا۔ہماری زندگیوں میں ہمارے اس جلتے ہوئے ماحول میں تکلیفوں بھرے ماحول میں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا که دفاتر، سرکاری دفاتر سے بیورو کریسی سے کوئی خیر نہیں پڑتی۔ لوگ بہت دکھی رہتے ہیں۔
اللہ کے فضل سے ہمارا ایک محکمہ ایسا ہے جو غیر ہانکتاہے۔ میں اس سے بہت خوش ہوں۔ وہ ڈاک کا محکمہ ہے….. آپ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی چیز لے جائیں، وہاں بابو ٹھپا لگا کر آپ کو رسید دیتا ہے ۔ میں دعا کرتا ہوں۔ آپ یقین کریں میں بچی بات عرض کرتا ہوں کہ جس طرح سے لوگ کسی درگاہ کے قریب سے گزرتے ہوئے سلام کرتے ہیں، میں جب بھی کسی ڈاک خانے کے پاس سے گزرتا ہوں، چاہے میں گاڑی میں جا رہا ہوں میں انہیں سلام ضرور کرتا ہوں۔اب آپ کہنے والے ہوں گے۔ جناب منی آرڈر چوری کر لیا تھا۔ انہوں نے اخبار میں آتی ہیں ایسی چیزیں۔ میں مجموعی طور پر بات کر رہا ہوں۔ وہ بڑی خوبی کے مالک ہوتے ہیں، اور وہ آپ کو آسانیاںعطا کرتے ہیں۔
میں جب نیا نیا آیا ولایت سے آیا تو میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ ڈیرے کیا ہوتے ہیں۔ میں نے وہاں جو پہلی بات نوٹ کی ، وہ یہ تھی کہ ہم لوگ اندر بیٹھے ہیں۔ کھانا کھا رہے ہیں۔ بابا سے باتیں ہو رہی ہیں۔ جب ہم باہر نکلتے تھے تو ساروں کی جوتیاں ایک قطار میں ہوتی تھیں، اور ان کا رخ باہر کی طرف ہوتا تھا۔
میں نے دیکھا کہ لوگوں کی جوتیاں ٹھیک کرنا اچھا فعل ہے۔ مجھ میں کیونکہ تھوڑا سا گھمنڈ تھا کہ میں ولایت سے پڑھ کے آیا ہوں، بڑا کوالیفیکیشن والا ہوں میں نے ہمت کر کے جوتیاں سیدھی کرنے کی کوشش کی۔ یہ مشکل کام تھا لیکن میں نے زور لگا کے اور آنکھ بچا کے (میری بھی عزت کا سوال تھا) تین چار پانچ ٹھیک کی تھیں کہ اوپر سے باباجی آگئے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا (که نہ نہ نہ پت…. تسین ایہہ کم نہ کرو) …. آپ نے نہیں کرنا۔
میں شرمندہ سا تھا اٹھا لیا مجھے۔ سب لوگ دیکھ رہے ہیں مجھے منع کر دیا گیا۔
منع تو ہو گیا لیکن میری طبیعت پر بڑا بوجھ رہا۔ میںپہ سوچتا رہا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ میں ایک اچھے فعل میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ بابا جی نے میری ساتھیہ کیوں کیا۔
ایک دوپہر کے وقت ہم اکیلے تھے۔ میں نے کہا، جی میں ایک بات عرض کروں۔ میری طبیعت پر اس کا بڑا بوجھ ہے۔ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ میں تو اچھا کامکر رہا تھا۔کہنے لگے آپ کے لیے ضروری نہیں تھا۔ ایسا فعل آپ کے تکبر میں اور اضافہ کر دیتا۔ چند لوگ دیکھتے کہ جناب سبحان اللہ اشفاق صاحب یہ کام کر رہے ہیں۔ آپ نے اور ” پائے خان“ بن جانا تھا۔بڑی دور کی بات ہے۔ اس لیے ہم نے ان لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا، ہم ہر گز ہر گز پیچھے کی طرف نہیں جا رہے ہیں۔ ہم تو بہت آگے ذرا زیادہ Advance جا رہے ہیں۔ ہم لوٹ کے آنا چاہتے تیں۔ اس استحکام، اور مضبوطی کی طرف جو کسی زمانے میں ہمار اطرہ امتیاز تھا۔ایک سائیکالوجی کے پروفیسر تھے۔ بہت بھلےآدمی۔ میرا بھانجا ان سے پڑھتا تھا …. وہ ایک دن آیا۔
کہنے لگا، ماموں پروفیسر صاحب ایکسٹرا کلاسیں لیتے ہیں شام کے وقت اور دس Student ان کے پاس بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ ای تو پیسے نہیں دے سکتیں ابو کا ہاتھ کچھ تنگ ہے۔ آپ پر وفیسر صاحب سے مل کر کچھ ملے کریں۔ ابو کہتے ہیں کہ ہم ان کو 500 روپیہ دے سکتے ہیں۔
میں ان پر وفیسر صاحب کے پاس گیا۔ شام کے وقت گھاس پر پر انے انداز میں بیٹھے ہوئے بڑے انہماک اور لگن کے ساتھ پڑھا رہے تھے۔ میں نے گستاخی کی۔ میں نے کہا پر وفیسر صاحب میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کلاس چھوڑ کے آئے۔ میں نے کہا میں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔ آپ مجھے جانتے ہیں۔ کہنے لگے ، ہاں جی ہاں ہم آپ کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ میں نے کہا آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ میری بہن زیادہ صاحب حیثیت نہیں ہے وہ صرف پانچ سور و پیہ آپ کو دے سکیں گے۔ کہنے لگے اشفاق صاحب …..! مجھے پڑھانے کےپیسے تو ملتے ہیں۔میں نے کہا وہ دوسرے لڑکے آپ کو زیادہدیتے ہوں گے۔کہنے لگے، نہیں نہیں مجھے سرکار سے ملتے ہیں۔میری تنخواہ ہے۔میں نے کہا، وہ تو کالج میں پڑھانے کے ملتے ہیں یہ تو آپ ایکسٹر اپڑھارہے ہیں۔کہنے لگے تو تو تو All the timeTeacher is Teacher صبحپڑھائے یا شام۔اس کے پیسے تو مجھے سرکار ہی دیتی ہے۔ یہ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ میں 500 روپیہ لیتا ہوں۔ آپ تو مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ یہ تو میر افرض ہے۔ یہ میریمحبت ہے۔ یہ لوگ بڑی محبت کے ساتھ آئے ہیں۔ وہ پروفیسر تھے جو آسانی عطا کرتے تھے۔ ان کے پاس اور کلاسیں آتی رہیں۔ میں ان کو دیکھتا رہا۔ ان کو سلام کرنے جاتا رہا، کیونکہ وہ بھی ایک بابا تھے۔ اسی طرح میری پوتی ایک بابا ہے۔ میں اسے سلام کرتا ہوں۔ ڈاکخانہ ایک ہاہا ہے۔ یہ ایک استعارہ ہے جس میں بیچ بیچ لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن ذرا سا جھٹکا اس لیے لگتا ہے کہ اس میں ایمپوسٹر ز تو ضرور آہی جاتے ہیں۔ جعلی بندے شامل ہو ہی جاتے ہیں۔ ایمپوسٹر ز جو ہے، جھنگ جو ہے ، وہ اپنے انداز کا ہے ، ویسا ہی رہے گا۔آپ نے اپنے بچپن میں دیکھا ہو گا۔ آپ کے محلے کے آپ کے گاؤں کے ، اور آپ کے قصبے کے یا آپ کے شہر کے بزرگ جب راہ چلتے تھے تو اپنی چھڑی کے ساتھ کوئی کیلے کا چھا کا پڑا ہوا ہے یا کوئی ایسی گری پڑی چیزاینٹ روڑ اپناتے چلے جاتے ہیں۔ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ یہ بد نصیبی ہے۔ جس دن اپنی چھڑی کے ساتھ ، ایک اکیلا آدمی اس آلائش کو دور کرتا چلا جائے گا، مجھے یقین ہے کہ اس کے پیچھے چلنےوالے آتے جائیں گے ، اور ملتے رہیں گے۔ہماری یہ کو تا ہی رہی ہے کہ ہم اس کے بارے میں علم عطا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ وہ باباجی نے جو کہا تھا کہ ان کو محبت دینا۔ آپ کو مجھ سے محبت کی ضرورت ہے ورنہ علم اندر نہیں جاتا۔وہ پروفیسر جو گھاس پر بیٹھ کر لڑکوں کو پڑھاتا تھا، اس کا علم جاری رہا تھا۔ وہ اس لیے کہ اس کے پاس ایک پر نالہ تھا جو محبت کا تھا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر 2024