بال جبریل حصہ دوم
غزل نمبر شمار 37
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل )
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
تو بھی یہ مقام آرزو کر
عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں
چاک گل و لالہ کو رفو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تفہیم و تشریح
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ بو کر
اس شعر میں اقبال نے خرد یا عقل کو فطرت کا مد مقابل بنانے کا مشورہ دیا ہے فطرت کی بے پناہ اور قاہر قوتوں کو انسان نے عقل کی مدد سے تسخیر کیا اگر انسان اب بھی عقل سے کام لے کر فطرت کی ان قوتوں کے مقابلے میں ا جائے تو وہ دنیا کو تسخیر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
انسان کا سب سے بڑا جوہر اس کی خودی ہے اج کے انسان نے اپنا یہی بیش قیمت جوہر گم کر دیا ہے یعنی ہمیں خود ہی باقی نہیں رہی ہمیں چاہیے کہ اپنے اس گمشدہ جوہر کی تلاش کریں تاکہ ہماری زندگیاں بامعنی بن جائیں
تاروں کی فضا ہے بے کرانہ
تو بھی یہ مقامِ آرزو کر
ستاروں کو دیکھیے وہ بے حد بے کراں فضا میں چکر لگا رہے ہیں خلا کی ان وسعتوں میں گھومنا رشک کے قابل ہے اس کے برخلاف انسان نے اپنے اپ کو چھوٹی چھوٹی جگہوں تک محدود کر لیا ہے اور علاقائی تعصبات میں محصور ہو کر رہ گیا ہے اسے انتصبات کو ترک کر کے تاروں کی طرح وسیع کائنات میں مصروف عمل رہنا چاہیے
عریاں ہیں تیرے چمن کی حوریں
چاکِ گل و لا لہ کو رفو کر
تیرے چمن کے پھول حوروں کی طرح خوبصورت تھے مگر ان کا لباس کسی نے تار تار کر کے انہیں عریاں کر دیا ہے اے انسان ان پھولوں کے زخموں پر مرہم رکھ اور انہیں دوبارہ تندرست کر دے دنیا کے لوگ بہت سی پریشانیوں میں مبتلا ہیں وہ بیمار ہیں ان کی بہت سی ضروریات ہیں مگر بے شمار لوگوں کو بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتی رہنماؤں کو چاہیے کہ مفلوق الحال لوگوں کے حالات بہتر بنائیں
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
فطرت نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ بھی اچھا ہے فطرت بھی اپنا ایک ذوق رکھتی ہے مگر فطرت کا یہ ذوق ناقص ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ حسن فطرت میں جو کمی رہ گئی ہے اپنی جدوجہد سے اس کی اصلاح کرے اور دنیا کو بہتر سے بہتر جگہ بنانے کی کوشش سے ہاتھ نہ اٹھائے
فطرت نے رات بنائ تو چراغ بنا
فطرت نے مٹی بنائ تو اس سے پیالہ بنا
فطرت نے بیاباں بنائے تو خیاباں بنا
فطرت نے کہسار بنائے تو گلزار بنا