بلغاریہ کی نا بینا خاتون بابا وینگا کی پیش گوئیاں
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بلغاریہ کی نا بینا خاتون بابا وینگا کی پیش گوئیاں)بہت ہی درست پیشین گوئیاں کرنے والی بلغاریہ کی نابینا خاتون بابا وانگا ویسے تو مدتوں سے شہ سرخیوں میں ایک المکار ہے ،روی اور دیگر کئی ممالک میں لوگ اس کے ہاتوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرتے ہیں۔ تاہم رواں سال یورپی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی اور تارکین وطین کی تعداد میں اضافے اور یورپ کے خدشات کی وجہ سے ان کی پیشین گوئیوں پر آج کل نئے سرے سے بحث ہورہی ہے۔
حالیہ دنوں میں انتہا پا ندی کے پر تشدد واقعات، آب و ہوا کی شدید تبدیلیوں، بین الاقوامی سیاسی اتھل چھل کی خوخاک مشکلی دور سے گزر رہا ہے۔ اس در میان ان واقعات اور جہد افیوں کی دہائیوں پہلے پیشن گوئی کرنے والی ایک نابینا خاتون بابا د ی کا کا ذکر بھی ہے اور رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایی قران کوئی پر عالمی سطح بحث ہوری ہے ، اس سے پہلے سولہویں صدی میں فرانسیسی نجومی نوسٹر فیس نے بھی بہت شہرت پائی۔ منطقیق کے بارے میں جانتا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں میں ہے صلاحیت ہوتی
کہ وہ آنے والے دنوں یا سالوں کے بارے میں خیر دے سکتے ہیں۔ بعض اوقات وہ باتیں درست ثابت ہوتی ہیں اور کبھی غلط۔
آج ہم آپ کو بلغاریہ کی رہنے والی ایک ایسی نابینا خاتون کے بارے میں بتاتے ہیں جس نے میسویں صدی کے شروع میں آنے والے سینکڑوں سالوں کے بارے میں کئی پینگوئیاں کیں، جن میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی پیش گوئی بہت مقبول بھی ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی دیگر باتیں بھی اب تک کافی درست ثابت ہو چکی ہیں۔ بابا وینگا بیسویں صدی کی کی دہائی میں 31 جنوری 1911ء میں بلغاریہ کے شہر استر وینا Surumica میں وہ باید اہوئی، جو اس دور میں ایک حصہ تھا۔
وہ غربت زدہ گھیر کا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس کی ماں کے ارد گرد گھر کی پرانی دایہ کے علاوہ دو چار رشتہ دار خواتین بھی تھیں۔ پورے کمرے میں تیل اور مسالوں کی بورچی ہوئی تھی۔ ایک عجیب سا ماحول۔ اس پر ایک ایسی بچی کی پیدائش جس کی سانسیں شاید گنتی کی تھیں۔ پیدا ہونے والی بچی کا باپ دوسرے کمرے میں اپنا سر تھامے بیٹھا تھا۔ یہ ان کی پہلی اولاد تھی۔ اگر یہ بچی صحت مند اور نارمل ہوتی تو شاید اس کے باپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہو تا۔ لیکن اس وقت تو وہ اس کی زندگی ہی کی طرف سے مایوس تھا۔
اس کی پیدائش قبل از وقت ہوئی تھی اس لیے وہ بے انتہا کمزور پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں اس کے گھر والوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ زندہ نہیں بچے گی۔ اس لیے اس کا کوئی نام نہیں رکھا گیا تھا۔ لیکن ان سب کے خدشات کے بر عکس بچی نے نہ صرف کلبلانا شروع کر دیا بلکہ ملکی آواز میں رونے بھی لگی تھی۔ اس کے باپ کو جب یہ خبر سنائی گئی تو وہ جوش میں کھڑا ہو گیا۔ جب بچی کی صحتیابی کے آثار نظر آنے لگے، تو اس بچی کا نام رکھا گیا۔
اس علاقے کی روایت یہ تھی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تا تو دایہ بچے کو گود میں لے کر گلی میں نکل جاتی اور جو پہلا راہ گیر دکھائی دیتا اس سے درخواست کی جاتی کہ بچے کا نام رکھ دے۔ اگر پہلے راہ گیر کا نام پسند نہیں آتا تو پھر دوسرے راہ گیر سے کہا جاتا۔
دایہ رسم کے مطابق بچی کو کپڑے میں لپیٹ کر گود میں اٹھا کر نکلی میں لے آئی اور کسی اجنبی راہ گیر سے نام رکھنے کو کہا، وہ اجنبی جس کا تعلق شاید یونان سے تھا اس نے اس بچی کا نام ” اینڈ رومانہ “ رکھا۔ پہلے راہ گیر نے جو نام رکھا وہ ان لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ وہ مشکل بھی تھا اور اس نام میں یونانی اثرات بھی تھے۔ دوسرے راہ گیر نے جب اس بچی کو دیکھا تو کچھ دیر تک دیکھتا ہی رہا۔ پھر دھیرے سے بولا۔” یہ بچی بہت مختلف ہو گی۔ اس لیے اس کا نام وینجلیا” (وانڈ لیا) Vangelia نام رکھ دو۔ مینجلیا کے معنی تھے خوشخبری لانے والی .. بالآخر اس کا نام ”وانڈ لیا پاندوا دیمیتر وا “ Vangelia Pandeva Dimitrova رکھا گیا۔جو بعد میں وینگا میں تبدیل ہو گیا۔
دینگا بچپن سے نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں کی وجہ سے خوبصورت تو تھی ہی ساتھ میں ذہین بھی تھی، انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہونے والی یہ بچی دوسرے بچوں سے بہت مختلف تھی۔ دوسرے بچے تو کھیل کود میں وقت گزارتے جبکہ یہ کسی گوشے میں بیٹھ کر نہ جانے کیا کیا سوچتی رہتی۔نیکی ذرا بڑی ہوئی تو اس کے مشاغل دوسروں سے بہت مختلف نظر آنے لگے۔ وہ آسمان کو دیکھا کرتی۔ ہواؤں کو سونگھا کرتی۔
ایک دن اس نے کہا۔ “کل بہت زور کی بارش ہو گی۔“
سب نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کیونکہ نہ تو وہ بارش کا موسم تھا اور نہ ہی آسمان پر بادلوں کا نام و نشان تھا۔ اس کے باوجود وہ بہت پر یقین تھی۔ ” میں نے کہا نا کہ کل بارش ہو گی۔ تم لوگ دیکھ لینا کیسی بارش ہوتی ہے۔“
اور دوسرے دن خلاف توقع واقعی بہت زور دار بارش ہوئی۔ وینگا کی اس بات کو حیرت سے دہرایا تو گیا لیکن اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا۔ کبھی کبھی کچھ بچے اس قسم کی باتیں کہہ جاتے ہیں اور قدرت ان کی بات رکھ لیتی ہے۔ یہ بھی شاید کوئی ایسی ہی بات ہو گی جو اتفاقا ہو گئی ہو گی۔
لیکن جب اس نے ایک بار شہر کے ایک علاقے میں آگ لگنے کی پیش گوئی کی تو سب یہ جان گئے کہ اس میں کوئی غیر معمولی صلاحیت ضرور ہے۔ ایک بار اس کے والد کی بھیٹر چوری ہوئی تو اس نے وہ پتا بتا دیا جہاں چوروں نے بھیڑ کو چھپارکھا تھا۔
وینگا کے مشاغل صرف یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ اس نے علاج بھی شروع کر دیا۔ کوئی بچہ بیمار ہو جاتا تو وہ اس کا ہاتھ تھام کر یا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہیلنگ Healing بھی کیا کرتی، اس طرح اس نے بے شمار بیمار بچوں کے علاج کر ڈالے تھے۔ اپنے گھر اور پورے محلے میں وینگا کو ایک خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔ کئی بڑے لوگ بھی اپنی قسمت کا حال جاننے کے لیے اس کے پاس آیا کرتے۔ کچھ لوگ موسم کا حال معلوم کرنے اس کے پاس آتے اور وہ ٹھیک ٹھیک بتادیا کرتی۔
اس کے ساتھ کئی انتہائی خطرناک حادثات بھی ہوئے۔ پہلا حادثہ تو اس کی ماں کی موت کا تھا۔ اس ماں کی موت اچانک ہی ہوئی تھی اور دوسرا حادثہ اس کے نابینا ہو جانے کا ہوا۔
وینگا کی زندگی میں ایک حادثہ ہوا جس نے اسے نابینا کر دیا۔ بارہ سال کی عمر میں وہ ایک پر اسرار بگولے کی زد میں آگئی۔ ہوائی بگولے نے اسے اٹھا کر اتنی دور پھینک دیا کہ وہ زخمی حالت میں کئی دنوں کے بعد اپنے خاندان کو ملی۔ لیکن اس کی آنکھیں مٹی سے بھر گئی تھی اور تکلیف کے مارے اس سے آنکھیں نہیں کھولی جارہی تھیں۔ اس کے غریب باپ نے جو ایک سپاہی رہ چکا تھا، اس کا علاج کروانے میں کوئی کمی نہیں رکھی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں ٹھیک نہیں ہو سکیں۔ اس کی بینائی ہر طرح کے علاج اور کوششکے باوجود ختم ہو گئی۔کہتے ہیں کہ جنہیں قدرت کسی ایک جس سے محروم کر دیتی ہے اور جب ان کی دیگر صلاحیتیں بے دار ہو جاتی ہیں۔ وینگا میں یہ صلاحیتیں شروع سے موجود تھیں۔ نابینا ہو جانے کے بعد وہ صلاحیتیں پوری طرح کھل کر سامنے آگئیں۔1925ء میں جب وہ تیرا سال کی تھی تو اسکے باپ نے اسے زیمون Zemun شہر میں نابیناؤں کے ایک اسکول میں داخل کرا دیا ۔ وہ تین سال تک وہاں تعلیم حاصل کرتی رہی۔اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ جس سے دینگا کے سوتیلے بھائی بہن تھے۔ خوش قسمتی یہ ہوئی کہ دینگا کی دوسری ماں بہت مہربان اور پیار کرنے والی عورت ثابت ہوئی۔ اس نے اپنی سنگی اولاد کی طرح وینگا کا خیال رکھا تھا۔سوتیلی ماں نے اس کی خفیہ صلاحیتوں کی بھیبھر پور ہمت افزائی کی۔اسکول میں آنے کے بعد اس کی دوسری صلاحیتیں بھی سامنے آنے لگیں۔ نابینا ہونے کے باوجود وہ بہت اچھا پیانو بچالیتی۔ کوکنگ کر لیتی۔ رقص کر سکتی تھی۔ یہاں اس نے بریل رسم الخط کی۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2016