ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یقیناً آپ نے ابتدائی لائن پڑھ کر اس آرٹیکل کو پڑھنے کا سوچا ہوگا کیونکہ شاید آپ میں سے زیادہ تر وہ لوگ، جو فلکیات کے متعلق آگاہی رکھتے ہیں، اس بات سے واقف ہوں گے کہ بلیک ہول ایسے اجسام ہیں جو خلا اور وقت کی ساخت (fabric of space-time) کو اس حد تک خم دیتے ہیں کہ روشنی، جو کہ تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے، بھی اس شدید کرویچر کی وجہ سے قید ہو جاتی ہے۔
لیکن اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا یہ کہنا کہ بلیک ہول سے چیزیں باہر نکل سکتی ہیں، واقعی سوچنے کے قابل ہے۔
تھوڑا سا بلیک ہول کے بارے میں بات کی جائے تو یہ ستاروں کی موت سے وجود میں آتے ہیں۔ پہلی بار ہمیں ان سے سگنل تقریباً 1930 کے دوران وصول ہوئے، مگر ہم اپنی کمزور ٹیکنالوجی کے باعث انہیں سمجھنے میں ناکام رہے۔ پھر 1970 میں سائنسدانوں نے خلا میں کچھ ستاروں کی عجیب و غریب حرکات کا مشاہدہ کیا، جو کسی نامعلوم جسم کے گرد گردش کر رہے تھے۔ کچھ ستارے بہت تیزی سے اور کچھ نسبتاً آہستہ گردش کر رہے تھے۔ ان اثرات نے سائنسدانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ یہاں کچھ ایسا ہے جو ان بڑے ستاروں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ شاید یہ کوئی بہت بڑا ستارہ ہو۔ اس دوران آئن سٹائن کی پیشگوئیوں کے مطابق بلیک ہول کے وجود کی بحث بھی جاری رہی، لیکن ابتدائی طور پر کئی سائنسدانوں نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔ تاہم، تقریباً 30 سال بعد، سائنسدانوں کی اکثریت نے اس حقیقت کو قبول کر لیا کہ بلیک ہول واقعی موجود ہیں۔
آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی ہمیں صرف بلیک ہول کی بنیاد فراہم کرتی ہے، یعنی یہ کیسے وجود میں آتے ہیں، ان کا اسپیس ٹائم پر کیا اثر ہوتا ہے، اور ان کی گریوٹی وقت پر کیسے اثر ڈالتی ہے۔ تھیوری کے مطابق، جیسے جیسے آپ بلیک ہول کے اندر داخل ہوتے جائیں گے، اس کا قطر (diameter) کم ہوتا جائے گا اور اس کی “فنل” پتلی ہوتی جائے گی۔ لیکن آئن سٹائن کی تھیوری ہمیں اس سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کرتی۔
اس کے بعد آتی ہے کوانٹم لوپ تھیوری۔
کوانٹم لوپ تھیوری اٹلی کے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے پیش کی، جن میں نمایاں نام Dr. Carlo Rovelli کا ہے۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ سپیس ٹائم کی ساخت مسلسل نہیں ہے، بلکہ یہ “گرینولر” (granular) ہے، یعنی چھوٹے ذرات (particles) سے بنی ہوئی ہے۔ ان ذرات سے بھی چھوٹے اجزاء کے بارے میں ہم ابھی نہیں جانتے۔ اگر