تاروں بھرے آسمان کے نیچے تنہا اور ویران دل
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )تاروں بھرے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر آسمان کی وسعتوں کو دیکھنا ہمیشہ سے ایک عجیب سا احساس پیدا کرتا ہے۔ آسمان کی روشنی، جو لاکھوں میل دور موجود ستاروں سے آتی ہے، ایک پل کے لیے انسان کو خود سے دور کر دیتی ہے اور کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے، جہاں وقت، فاصلے، اور درد سب معدوم نظر آتے ہیں۔ لیکن وہیں، انسان کے اندر کا دل ایک الگ حقیقت میں قید رہتا ہے۔ اس دل کی تنہائی، جو اکثر ستاروں کی بے انتہا روشنی کے نیچے مزید گہری محسوس ہوتی ہے، ایک ایسی کیفیت ہے جسے بیان کرنا مشکل ہے۔
کبھی کبھی، ہم اپنی زندگی کی مشکلات، احساسات، اور ادھوری خواہشات کے بوجھ تلے اتنا دب جاتے ہیں کہ باہر کی روشنی اور خوشیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دل کے اندر ایک خاموشی جنم لیتی ہے، جیسے کسی صحرا میں ایک اکیلا درخت کھڑا ہو۔ آسمان کے نیچے ہر طرف روشنی اور زندگی ہو، مگر دل کے اندر بس ویرانی اور سناٹا ہو۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جب دل خود کو دنیا سے الگ تھلگ محسوس کرتا ہے۔
تارے آسمان پر چمکتے ہیں، ان کی روشنی میں امیدیں چھپی ہوتی ہیں۔ ہر تارا ایک خواب، ایک دعا یا ایک خواہش کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات، دل اتنا زخمی اور تھکا ہوا ہوتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو بھی سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ہر تارا جیسے دل کے درد میں مزید اضافہ کرتا ہے، اور دل کی ویرانی بڑھ جاتی ہے۔
یہ دل کی وہ حالت ہوتی ہے جب انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے، چاہے کتنے ہی لوگ اس کے اردگرد موجود ہوں۔ آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر، جب انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کہاں کھڑا ہے، تو دل کا درد اور تنہائی مزید گہری ہو جاتی ہے۔ یہ درد اور ویرانی شاید دل کی سب سے بڑی حقیقت ہے، جسے ہر انسان کبھی نہ کبھی محسوس کرتا ہے، چاہے وہ اسے بیان نہ کر سکے۔
دنیا کی روشنیوں میں، ستاروں کی چمک میں، اور رات کے سکون میں بھی دل کی تنہائی اور ویرانی اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دل کی گہرائی میں چھپے درد کو کوئی بھی روشنی یا خوشی مٹا نہیں سکتی، جب تک کہ وہ اندر سے خود نہ ٹھیک ہو۔
تاروں بھرے آسمان کے نیچے کھڑے ہو کر یہ سوچنا کہ دل کی ویرانی کب ختم ہوگی، شاید یہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں کبھی نہ مل سکے۔ لیکن پھر بھی، یہ امید باقی رہتی ہے کہ کسی دن یہ دل بھی ستاروں کی طرح چمک اٹھے گا۔
شازی کنول۔