Daily Roshni News

تسلیم و رضا کے بندے۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد۔۔۔قسط نمبر1

تسلیم و رضا کے بندے

تحریر۔۔۔اشفاق احمد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تسلیم و رضا کے بندے۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد)مجھ سے لوگ آکر پوچھتے ہیں کہ آخر ” خوش کیسے رہا جائے“ اور سکون قلب کے لیے کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

خواتین و حضرات ….! خوش رہنے کے لیے ایک مشکل ساطریقہ تو یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی خوشی میں شریک کیا جائے۔

اب یہ بڑا مشکل کام ہے۔ خوشی کے حصول کے لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے وگرنہ آپ خوش نہیں رہ سکتے۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ در نختوں کو قادر مطلق نے جس طرح کا پیدا کر دیا وہ وہاں ہی کھڑے ہیں۔ ایک درخت بھی دوسرے درخت سے حاسد نہیں ہوتا۔

خواتین و حضرات ! انسان ہمیشہ اپنی قسمت پر شاکی رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے ایسا ہونا چاہیے تھا، کوئی کہتا ہے مجھے ویسا ہو نا چاہیے تھا لیکن درخت ایسا شکوہ نہیں کرتا۔ کبھی در محتوں نے یہ شکایت نہیں کی کہ جناب جب سے پیدا ہوئے ہیں وہیں گڑے ہوئے ہیں۔ نہ کہیں سیر کی ہے نہ گھوم پھر کے دیکھا ہے۔ درخت ہمیشہ خوشی سے جھومتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی خوشیاں عطا کرتے ہیں۔ ایسے ہی پرندے اور جانور ہیں بھی کسی شیر نے زیبر ابننے کی خواہش نہیں کی۔ کسی ہرن نے کبھی فائتہ بننے کا نہیں سوچا۔

ہمیں زندگی میں کبھی کبھی ایسا انسان ضرور مل جاتا ہے جس کو دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ یہ کیسا بادشاہ آدمی ہے ؟ یہ مالی طور پر بھی کم زور ہے۔ علمی، عقلی اور نفسیاتی طور پر کم زور ہے لیکن یہ خوش ہے۔

ہمارے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک ڈاکیا ہے تھا۔ اس کا نام اللہ دتہ ہے۔ اس جیسا خوش آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس کا عشق ڈاک اور ہر حال میں خط پہنچانا ہے۔ چاہے رات کے نو بیج جائیں وہ مخط پہنچا کر ہی جاتا۔ وہاں علاقے میں ایک کرنل صاحب کا ایک کتا تھا۔ اللہ دتہ کو پتہ نہ چلا اور ایک روز اچانک اس کتے نے اس کی ٹانگ پر کاٹ لیا اور اس کی ایک بوٹی نکال لی۔ خیر وہ ٹانگ پر رومال باندھ کر خون میں لت پت ڈاک خانے آگیا۔ ہم اسے بعد میں ہسپتال لے کر گئے اور اسے نیکے دیکے لگوائے۔ وہ بڑی دیر کی بات ہے لیکن وہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ کتنا عجیب و غریب آدمی تھا جو گھبر آتاہی نہیں تھا۔ انسان جب بھی خوش رہنے کے لیے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے آدمی امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ امارت تو خوف ہوتا ہے۔ آدمی امیر دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بننا چاہتا ہے۔ ہم ایک بار ایک دفتر بنارہے تھے۔ مزدور کام میں لگے ہوئے تھے۔ وہاں ایک سلطان نام کا لڑکا تھا میں متجس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذر از یادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو ۔ میں اس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا۔ ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اسے چالیس روپے دیتے تھے۔ وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اورنچ پیچ یادھاری نظر نہیں آتی تھی۔ سلطان ایک دن دفتر نہ آیا تو میں نے ٹھیکے دار سے پو چھا کہ وہ کیوں نہیں آیا۔ دیگر افسر لوگوں کی طرح میں نے اس کا پتہ کرنے کا کہا۔ معلوم ہوا کہ وہ اچھرہ کی کچی آبادی میں رہتا تھا۔ میں اپنے سیکرٹری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اسے لینے چلا گیا۔ بڑی مشکل سے ہم اس کا گھر ڈھونڈ کر جب وہاں گئے تو سیکرٹری نے سلطان کہہ کے آواز دی۔

اس نے کہا کہ کیا بات ہے؟

میرے سیکرٹری نے کہا کہ صاحب آئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کیپٹر صاحب !

سیکرٹری نے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب۔ وہ جب باہر آیا تو مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے انتہائی خوشی کے ساتھ اندر آنے کو کہا لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں سخت ناراض ہوں اور میں تمھاری سرزنش کے لیے آیا ہوں۔

وہ کہنے لگا کہ سر میں بس آج آنہیں سکا۔ ایک مشکل ہو گئی تھی۔

میں نے کہا کونسی مشکل۔ تم ہمیں بغیر بتائے گھر بیٹھے ہوئے ہو۔ تم نے اپنی مرضی سے چھٹی کر لی۔ اس طرح سے میری بڑی تو ہین ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ سر آپ برائے مہربانی اندر تو آئیں۔ وہ مجھے زبردستی اندر لے گیا۔ اس کی بیوی چائے بنانے لگ گئی۔ میں نے اس سے کہا میں چائے نہیں پیوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے چھٹی کیوں کی ….؟

وہ کہنے لگا کہ سرٹین کے کنستر میں میں نے سورج مکھی کا ایک پودا لگایا ہوا تھا اور اس میں ڈوڈی کھل کے اتنا بڑا پھول بن گیا تھا کہ کل شام میں کھڑا کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ میری بیوی نے کہا کہ یہ پہلا پھول ہے جو ہمارے گھر میں کھلا ہے۔

وہ کہنے لگا کہ سر مجھے وہ پھول اتنا اچھا لگا کہ میں خوشی سے پاگل ہو رہا تھا اور جب ہم کھانا کھا چکنے کے بعد سونے لگے تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ “سلطان ….! کیا تمھیں معلوم ہے آج ہمارا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2025

Loading