ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پچھلی پوسٹ میں فنا فی الشیخ ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے حوالے سے یہ بات تفصیل سے واضح کی گئی تھی کہ روحانی علوم میں” شیخ” اس بندے کو کہتے ہیں جو ” توحید افعالی سے ترقی کرکے توحید صفاتی کے اندر داخل ہو جائے ” توحید کے ان علوم، صلاحیت یا کوالیفیکیشن کو حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی طالب علم، سالک، شاگرد یا مرید ارتکاز توجہ اور مراقب ہوکر اس کو اپنے اندر منتقل کرنے یا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کو اصلطلاحی طور پر ” تصور شیخ ” کہتے ہیں، دنیا میں کوئی بھی علم ہو کسی بھی انسان کے اندر خیالات اور تصورات کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور خیالات ہمیشہ لہروں کی صورت میں کام کرتے ہیں، استاد جب لیکچر دیتا ہے تو اواز کے ذریعے اپنے خیالات شاگردوں کے اندر منتقل کرتا ہے اور خیالات لہروں کے ذریعے اواز بن کر سماعت یا کانوں کے ذریعے دوسرے دماغ کے اندر منتقل ہوتے ہیں آواز کے ذریعے یا مادی ذرائع سے آمنے سامنے رہ کر یا آن لائن انٹرنیٹ کےذریعے علوم کی منتقلی کے طریقے کو تصوف میں”علم حصولی” کہتے ہیں، استاد کی موجودگی اور دیگر مادی طرزوں کے بغیر تصورات کے ذریعے علوم منتقل کرنے یا حاصل کرنے کے طریقے کو ” علم حضوری ” کہتے ہیں، استاد یا مرشد سینکڑوں میل دور بیٹھا ہے اور شاگرد یا مرید تصور کے ذریعے اپنے اندر علم منتقل کر لیتا ہے کیونکہ دونوں کے اندر کائنات میں موجود اطلاعات ہر وقت ہر آن وارد ہوتی رہتی ہیں ، انسانی دماغ ان کو اپنے ارادے اور اختیار سے استعمال میں لاسکتا ہے، انسان اپنے مطلب، غرض یا ضرورت کی اطلاعات کے اندر معنی پہنا کر زندگی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، ہر قسم کی اطلاعات چھ مراحل سے گزر کر انسان کی زندگی کو متحرک کرتی ہے
1۔ اطلاع
2۔ واہمہ
3۔ خیال
4۔ تصور
5۔ حواس یا احساس
6۔ محسوسات یا مظہر
روحانیت کے اندر یہ ترتیب “نزولی حرکت ” کہلاتی ہے
علوم کی کوئی بھی شکل چاہیے سائنسی ہو، مادی ہو یا روحانی ہمیشہ انہیں مراحل سے گزر کر ہایہ تکمیل کو پہنچتی ہے، مادی جسم کے ذریعے حواس جب کسی دوسری چیزوں سے ٹکراتے ہیں تو محسوسات بنتے ہیں، انسان کے پانچویں حواس کسی چیز سے ٹکرائیں یا کوئی دوسری چیز ان سے ٹکرائے تو انسانی ذہن میں جاکر محسوسات بن کر تصورات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، تصورات خیالات بن کر حافظے میں ریکارڈ ہوجاتے ہیں جو وقت گزرنے پر واہمات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، روحانیت میں یہ ترتیب “صعودی حرکت” کہلاتی ہے، مراقبہ کرتے وقت انسانی حواس مادی جسم سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مراقبہ میں کامیابی کے تین مراحل ہیں
1۔ غنود
2۔ ورود
3۔ شہود
مراقبے کے دوران جب ذہنی ارتکاز میں اضافہ ہوتا ہے تو عنود کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور یہ ابتدائی کامیابی کی علامت ہے اس حالت میں مادی یا شعوری حواس روحانی یا لاشعوری حواس میں عروج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مشاہدہ نہیں یوتا اور عموما جسم کو جھٹکے لگتے ہیں، حواس کے اندر مزید گہرائی سے کچھ نہ کچھ ضرور نظر آتا ہے لیکن حافظے میں محفوظ نہیں رہ سکا یعنی دیکھا تو ہے لیکن کیا دیکھا یاد نہیں رہا یہ مراقبے کی دوسری بڑی کامیابی ہے، اس دوران جسم کو جھٹکے لگتے کا عمل بھی جاری رہتا ہے، یہ حالت ” ورود” کہلاتی ہے، جب حواس میں مکمل یکسوئی اور ارتکاز پیدا ہو جاتا ہے تو حواس مادی جسم سےآزاد ہو کر مشاہدہ کرتےہیں اور جو کچھ دیکھا وہ یاد بھی رہا اور وہ شعور کا حصہ بھی بن گیا اس کامیابی کو ” شہود ” کا نام دیا جاتا ہے، مسلسل مشق سے حواس اتنا زیادہ عروج حاصل کرلیتے ہیں کہ مراقبے کے دوران نہ صرف مادی جسم کی موجودگی کا احساس بھی ہوتا ہے بلکہ ماورائی اور غیبی دنیا کی تحریکات، مشاہدات اور علوم کا حصول بھی شروع ہوجاتا ہے اور سالک، شاگرد، مرید یا روحانی طالبعلم کسی نہ کسی منزل پر پہنچ جاتا ہے، استاد کے ساتھ ذہنی رابطہ جب مضبوط ہوتا ہے تو روحانی طالبعلم، سالک یا مرید اپنے مادی جسم کے بغیر حواس کو ارتکاز توجہ کے ذریعے اپنے استاد، شیخ یا مرشد کے علوم پر مرکوز کرتا ہے تو اس کے تصورات میں شیخ کے علوم منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو اس کے خیالات کا حصہ بن جاتے ہیں اسی عمل کو عرف عام میں ” خیال خوانی” یا ” ٹیلی پیتھی” telepathy کہتے ہیں، خیالات کی منتقلی یا ٹیلی پیتھی کا علم قرآن کریم ، احادیث اور اولیاء اللہ کے واقعات سے بھرا پڑا ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کا چیونٹیوں اور ہدہد سے گفتگو کرنا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ، درختوں اور پتھروں سے بات چیت کرنا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا جمعہ کے خطبہ کے دوران حضرت ساریہ کو دشمن کے لشکر کا پہاڑ کے پیچھے سے حملے کرنے کی اطلاع دینا سب ٹیلی پیتھی کے زمرے میں آتا ہے، روحانی مشقوں اور تصور شیخ کے مراقبے سے ٹیلی پیتھی کی صلاحیت کا پیدا ہونا ایک خود کار عمل ہے، اسکے حصول کے لئے مروجہ طریقے مثلا، شمع بینی، شمس بینی، آئینہ بینی، قمر یا ستارہ بینی کی ضرورت نہیں رہتی۔
ٹیلی پیھتی( telepathy) سری علوم کی ایسی شاخ ہے جس پر سائنسی طرزوں پر بہت ذیادہ تحقیق ہوچکی ہے لیکن ان کے طریقے اور معاون مشقوں اور نتائج کو عوام الناس سے چھپایا جارہا ہے، جدید سائنس میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ ہر چیز لہروں سے متحرک اور لہروں کے ذریعے ڈیٹا data منتقل کرنا ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے جس طرح برقی رو کے ذریعے اواز، تصویریں، وڈیوز کو لہروں میں منتقل کرکے ٹائم اینڈ اسپیس کو ختم کر دیا گیا ہے بلکل اسی طرح انسانی دماغ کے اندر اطلاعات جو بذات خود برقی رو ہیں ان کے اندر خیالات اور تصورات داخل کرکے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل کیے جاسکتے ہیں، انسانی دماغ بیک وقت ارسال و ترسیل یعنی sender and receiver کا کام کرتے ہیں یعنی اطلاعات کو وصول کرکے معنی پہنا کر آگے بھیج دیتا ہے،
خیالات کی منتقلی میں کسی قسم کے مادی اوزار tools کی ضرورت نہیں رہتی۔ مادی علوم اور روحانی علوم میں مشترک بات ” تصورات ” ہیں دونوں طرزیں علم کی شکل ہی اختیار کرتی ہیں، اگر ذہنی رحجانات مادیت کے اندر مرکوز ہیں تو نتائج بھی مادی ہونگے ہیں اور آنے والی اطلاعات اس نظام کو مستحکم کریں گیں، اگر مقصد اور رحجانات اللہ تعالٰی کی ذات و صفات اور اس کا عرفان ہے تو بندے کے دل و دماغ کے اندر اطلاعات انورات و تجلیات کی شکل میں جذب ہوکر روحانی نتائج مرتب کرتی ہیں، اس لئے روحانی علوم کے حصول میں طرز فکر کا الہامی بننا بہت اہمیت کا حامل ہے، الہامی یا روحانی طرزیں مستحکم کرنے میں وقت لگتا ہے، ٹیلی پیتھی چونکہ تصورات اور خیالات کی منتقلی کی صلاحیت ہے اس کے لئے ذہن کا یکسو ہونا بہت ضروری ہے، یکسو کا مطلب ” ایک سوچ یا خیال” ہے، جب ذہن ایک خیال، نقطے، مقصد پر مرکوز ہوجائے تو مطلوبہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں۔ اسی بات کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے “وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ- اور جو تمھارا معبود ہے وہ معبود ایک ہونا چاہیے “
سورہ مزمل میں اس بات کی تکمیل ان الفاظ میں کی گئی
وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا*
تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کر اور تمام خلائق سے کٹ کر اس کی طرف متوجہ ہو جا ۔