Daily Roshni News

تصوف کا قدم:

تصوف کا قدم:

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )1. خود شناسی (Self-Reflection): اپنی ذات کے بارے میں گہرائی سے سوچنا۔ اپنے خیالات، احساسات اور اعمال کا جائزہ لینا۔ یہ دیکھینا کہ آپ کی زندگی کے فیصلے کس بنیاد پر ہیں اور کیا وہ روحانی اصولوں کے مطابق ہیں۔

2.علم کا حصول: علم کی تلاش، خاص طور پر وہ علم جو آپ کو اپنے اور کائنات کی حقیقت سمجھنے میں مدد دے۔ قرآن، حدیث، اور اہل علم کی باتوں پر غور کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ کیسے انسان ظاہری دنیا کی بجائے باطن کی طرف سفر کرتا ہے اور حقیقت کو پا لیتا ہے۔ قرآن میں بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے ستارے، پھر چاند اور پھر سورج کی طرف دیکھا اور ہر ایک کو خدا سمجھا، لیکن پھر وہ سمجھ گئے کہ یہ سب فنا ہونے والی چیزیں ہیں اور اصل حقیقت ان کے پیچھے ایک عظیم ہستی کی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی۔

ظاہری سیر: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابتدا میں ظاہری دنیا کی چیزوں (ستارے، چاند، سورج) پر غور کیا اور انہیں خدا سمجھنے کی کوشش کی۔

باطنی سیر: لیکن جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب عارضی اور فانی ہیں، اور وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، جو ہر چیز کا خالق اور پائیدار ہے۔ اس باطنی سیر کے بعد انہیں اللہ کی وحدانیت اور حقیقت کا ادراک ہوا۔

یہی روحانی سیر ہے جو انسان کو ظاہری دنیا کی گہرائی سے نکال کر اس کے اندر موجود اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

ایک درخت کی مثال سے بھی اس تصور کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے:

ظاہری سیر (بیرونی حصہ): جب ہم ایک درخت کو ظاہری طور پر دیکھتے ہیں، تو ہمیں اس کے تنے، شاخیں، پتے، اور پھل نظر آتے ہیں۔ ہم اس کی خوبصورتی اور سایہ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور اس کے پھل کھا سکتے ہیں۔ ظاہری طور پر، درخت ہمیں صرف اپنی شکل و صورت اور افادیت میں نظر آتا ہے۔

باطنی سیر (اندرونی حصہ): لیکن جو چیز درخت کو اصل میں زندہ رکھتی ہے، وہ اس کی جڑیں ہیں، جو زمین کے اندر ہوتی ہیں۔ یہ جڑیں نظر نہیں آتیں، مگر وہی درخت کو پانی اور غذائیت فراہم کرتی ہیں۔ اگر جڑیں مضبوط نہ ہوں یا پانی اور غذائیت نہ ملے تو درخت مرجھا جاتا ہے، چاہے اس کی شاخیں اور پتے کتنے ہی سرسبز ہوں۔

انسان کی ظاہری عبادات، اعمال اور زندگی کے دنیاوی پہلو درخت کی شاخوں اور پتوں کی مانند ہیں۔ یہ ضروری ہیں اور ان کا اپنا مقام ہے، لیکن اگر انسان اپنی روحانی جڑوں (باطنی دنیا) پر توجہ نہ دے، یعنی دل اور باطن میں اللہ کی محبت اور معرفت نہ ہو، تو یہ ظاہری اعمال کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے۔

یہاں اللّٰہ پاک سے محبت معرفت الٰہی کا درجہ ہوتا جب بندہ اپنی ذات کی گہرائی میں جاتا تو اُسے عبادت بھی خاص اللّٰہ کی رضا کے لیے ہی نظر آتی، پورے خلوص کے ساتھ عبادت کا مزہ بھی آتا کیونکہ اللّٰہ پاک سے رشتہء مضبوط ہو رہا ہوتا۔

جیسے ہم دعا کرتے ہیں “اے اللّٰہ ہمیں علم عطا فرما، اے اللّٰہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا” یہاں ہم دعا تو کر رہے ہیں اور قبولیت کا بھی یقین ہے لیکن باطنی طور پر دیکھا جائے تو ہماری علم حاصل کرنے اور سیدھے راستے پر چلنے کی شدت ہوتی جو ہمارا باطن ہمیں راغب کر رہا ہوتا ہے اور ہم اُسے ایسی شدت اور محبت سے مانگ رہے ہوتے ہیں جیسے ہم اللّٰہ پاک سے ڈائریکٹ بات کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مُجھے موبائل کی ضرورت ہے اور مجھے شوق بھی ہے میں لینا چاہتا ہوں میرا انداز محبت میں مانگنے کا ہو یا ضد میں ایک الگ ہی کیفیت ہوگی کے مُجھے وہ لازماً چاہئے اور آپ ہی ہیں جو دیلا سکتے ہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ غلط مقصد کے لیے استمعال نہیں کروں گا آپکی مرضی پر اور آپکی مرضی کے مطابق استمعال کروں گا۔ اور پھر موبائل مل گیا اور ٹوٹ گیا یا گھم گیا تو دِل اطمنان میں ہوتا ہے کہ میرے پاس امانت تھی جتنی دیر تھی رہی اور چلی گئی ضروری ہوا تو بہتر مِل جائے گا نہ ہوا تو راضی ہوں۔۔۔۔۔

یہاں ظاہری کہنا اور ہے اور باطن کی گہرائی سے آواز نکلنا اور ہے باطن کی گہرائی سے آواز کیسے،کب اور کیوں نکلتی یہ سمجھنا ہی ہمیں حقیقیت میں خود شناسی (اپنی ذات کی کمزوریاں اور خوبیاں) اور اللّٰہ پاک سے اپنی ذات کا رشتہء کی مضبوطی سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔

Loading