Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاء۔۔۔ بقا کے راستے ۔۔۔قسط نمبر1

تعلیمات قلندر بابا اولیاء

بقا کے راستے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تعلیمات قلندر بابا اولیاء۔۔۔ بقا کے راستے )گیا ہے۔ اللہ تعالی اپنا پیغام بعض مخصوص ہستیوں یعنی اپنے انبیاء پر نازل فرماتے ۔ انبیاء وہ پیغام انسانوں تک پہنچاتے تھے۔

نوع انسانی کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے ابوالبشرنبی اول حضرت آدم علیہ السلام تا خیر البشر نبی آخر حضرت محمدﷺوحی نازل ہوتی رہی۔ خاتم التعیین حضرت محمد ﷺ پر یہ وحی اختتام کو پہنچی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے انسانی عقل کے لیے وحی کے ذریعے حتمی اشارے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ انسان کو خالق کائنات کی مرضی اور خالق و مالک کے پسندید و راستے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اس راستے پر چلنے کے قوانین بتادیئے گئے ہیں۔ اب قیامت تک ہر دور میں آنے والے انسانوں کو اس زمین پر اپنے لیے حصول معاش کی جد وجہد میں ، علم و فنون کے میدانوں میں ، سیاست، معیشت و معاشرت کے تمام شبوں میں اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے ترقی کرنی ہے۔ انسان کی ان کوششوں میں عقل کا استعمال اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی رہنمائی یعنی وحی کے تابع رہنا چاہیے۔

انسانی وجود جسم اور روح سے مرکب ہے۔ مادی تقاضوں کی طرح انسان کے روحانی تقاضے بھی ہیں۔ انسان کو مادی تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ روحانی تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیتیں بھی عطا کی گئی ہیں۔ مادی اور روحانی تقاضوں کی تفہیم اور تحمیل کے لیے انسان کو عقل اور وجدان سے نوازا گیا ہے۔ اس دنیا میں متوازن زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی عملی زندگی میں عقل و ضمیر ساتھ ساتھ چلیں۔

ضمیر کو روشنی قدرت کی طرف سے مقرر کردہ  باطنی زرائع سے ملتی ہے جبکہ عقل مادی زرائع سے روشنی حاصل کرتی ہے۔ ضمیر کا تعلق باطنی حواس سے اور عقل کا تعلق مادی حواس سے ہے۔ باطنی حواس سمتوں سے ماوراء بہت دور تک رسائی رکھتے ہیں۔ مادی جو اس میں محدودیت پائی جاتی ہے۔ اس دنیا میں پر سکون زندگی بسر کرنے کے لیے، اپنی زمین کو نوع انسانی اور اللہ کی دوسری مخلوقات کے لیے ایک بہتر مقام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالی کی مرضی اور منشاء سے واقف ہو اور اپنی فکر اور عقل کو خوشی خوشی اللہ کی مرضی کے تابع رکھے۔ کائنات میں سورج ستارے اور کائنات کے دوسرے ارکان اللہ کے بنائے ہوئے نظام میں بخوشی اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ….

ترجمہ: اور اللہ نے آسمان وزمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ خوشی سے خواہ ناخوشی سے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں۔[سورہ تم سجدہ (41): آیت 11]

 انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے رضامندی کے ساتھ قدرت کے اصولوں پر عمل پیرا رہنے کے بجائے قدرت سے تصادم کی راہ اپنالی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی بے مثال ترقی کے اس دور میں انسان کے پاس سہولتوں اور آسائشوں کی کوئی کمی نہیں ہے اس کے باوجود آج کا انسان ہر دور سے زیادہ پریشان ہے۔ آج کے دور میں لوگ ضرررساں بیماریوں میں پہلے سے زیادہ مبتلا ہو ر ہے ہیں۔ اسٹریس، ٹینشن، ڈپریشن، ڈیا بیلس، امراض قلب، جگر اور گردوں کی بیماریوں، کنیسر ، ایڈز جیسے امراض نے چاند پر کمند ڈالنے والی ترقی یافتہ نوع انسانی کو بری طرح جکڑ رکھا ہے۔

سائنسی ترقی سے ملنے والی آگہی کو توحید پر ایمان کی پختگی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ملنے والی آسائشوں کو خالق کائنات کے شکر کا ذریعہ بننا چاہیے تھا لیکن وحی کی اطاعت کے بغیر محض عقل کے استعمال کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود آج انسان کو خطرناک بیماریوں سمیت کئی مصائب کا سامنا ہے۔

انسانوں کی اس غلط روش اور اس کے غلط نتائج کو سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیاء قلندر بابا اولیاء نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے۔ امیاء کو نہ مانے والے فرقے توحید کو ہمیشہ اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے چنانچہ ان کے قیاس نے تاط رہنمائی کر کے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیں اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ توحیدی نقطہ نظر کے علاوہ نوع انسانی کو ایک ہی طرز فکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ لوح و قلم ]

اس دنیا میں انسان کی حیثیت ایک امین کی ہے۔ انسان کو یہ زمین بطور امانت دی گئی ہے۔ انسان کی تخلیق اس لیے کی گئی ہے کہ وہ اپنے خالق یعنی اللہ کا فرماں بردار اور عبادت گزار بن کر خلیفہ فی الارض کا منصب سنبھالے۔ خلیفہ فی الارض کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے انسان کو تصرف کی صلاحیت و قابلیت اور وسیع اختیارات سے نوازا گیا ہے۔ ان صلاحیتوں اور اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے انسان کو عقل، وجدان اور ضمیر عطا کئے گئے۔ عقل انسان کو صحیح راستے پر رکھے اس مقصد کے لیے انسان کو وحی کے ذریعے رہنمائی فراہم کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر انسان کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھا گیا اور اسے گمراہی سے بچانے کے لیے داخلی اور خارجی سطح پر (ضمیر اور وحی کے ذریعے) ہدایات کا انتظام کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو یہ بھی بتادیا گیا کہ یہ دنیا ایک امتحان ہے۔ ہر انسان کو یہاں اپنی کار گزاری کا حساب دینا ہے، پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینا ہے۔ اپنے اعمال کے نتائج دیکھنا ہیں۔ اچھے عمل کا نتیجہ خوش گوار ہوگا، برے عمل کا نتیجہ تکلیف دہ ہو گا۔ واضح رہے کہ اعمال کے نتائج قیامت پر ہی موقوف نہیں ہیں۔ یہ نتائج اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اس مادی دنیا میں نتیجہ سامنے آنے کا ایک نام ” مکافات عمل “ بھی ہے۔

مثال کے طور پر ایک آدمی نے کسی پر کوئی ظلم کیا، اسے تکلیف اور اذیت پہنچائی۔ متاثرہ تحفہ شخص اپنے اوپر اس ظلم کو روک نہ سکا۔ کچھ عرصہ بعد ایسے حالات ہو گئے ظالم شخص خود ایسے حالات میں پھنس گیا جس میں اس نے دوسرے کو پھنسایا تھا۔ نتیجے کا عمومی مطلب یہ ہے کہ ہر عمل اپنا ایک نتیجہ رکھتا ہے۔ عمل صرف کسی کام کا نام نہیں ہے بلکہ عمل کا مطلب ہے حرکت اور نیت۔

کسی کام کو کرتے وقت انسان کی نیت اس عمل کے حتمی نتیجے کا تعین کرتی ہے۔ عمل ایک ظاہری حرکت ہے، نیت کا تعلق انسان کے باطن سے ہے۔ عمل کو عقل سے تحریک اور ضمیر سے رہنمائی ملتی رہے تو اس کام کا نتیجہ خیر پر مبنی اورخوش گوار ہو گا۔

آج کے انسان کو در پیش مصائب اور مشکلات کا سبب یہ ہے کہ انسان نے وحی کے ذریعے ملنے والی رہنمائی کو نظر انداز کر کے محض اپنی عقل پر انحصار کر لیا ہے۔ مادہ پرستی کے زیر اثر انسان خود اپنے ضمیر کی آواز بھی نہیں سن رہا۔ دنیا میں ترقی کی خاطر موجودہ دور کی کئی انسانی کوششیں اللہ کی خوشنودی سے منسلک نہیں ہیں۔

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن بتاتا ہے کہ ترجمہ : آپ فرمادیجیے کہ ہم تمہیں (ان لوگوں کے بارے میں بتائیں جو اعمال کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی لیکن یہ لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ( وہ تو بہت ) اچھے کام کر رہے ہیں۔[سورہ کہف (18): آیات 104-103]

 آج کے دور میں انسانوں کے اقتصادی اور معاشرتی بیشتر معاملات، جھوٹے تصورات میں مبتلا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہیں ….؟ دنیا کے بڑے بڑے معاملات کے ذمہ دار بعض افراد …. لوگوں کی بدنیتی اور برے اعمال اس دنیا کو تباہی کی طرف اور انسانوں کو پریشانی اور بے سکونی کی طرف نہیں لے جارہے ….؟

وحی کی رہنمائی سے عاری انسانوں کی عظی تحریکات اپنے منفی نتائج کی وجہ سے مایوسی پھیلارہی ہیں۔ یہ مایوسی انسان کے لیے تباہی و بربادی لے آئے گی۔ نوع انسانی کو ان ہولناک نتائج سے بچانا ہے تو دانش وروں اور لیڈروں کو وحی سے رہنمائی لینی ہوگی، ضمیر کی آواز سنا ہو گی۔

قلندر بابا اولیا ء فرماتے ہیں ….” آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ نتیجہ میں نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطہ تو حید کی طرف لوٹا پڑ گیا تو بجز اس نقطہ کے نوع انسانی کسی ایک مرکز پر بھی جمع نہیں ہو سکے گی۔“

انسانوں کا تحفظ اور نجات اس کا ئنات کے خالق و مالک اللہ وحدہ لاشریک کی فرماں برداری میں اور اللہ کی بنائی ہوئی فطرت سے تعاون کرنے میں ہے۔ انسانوں کا آگاہ کرتے ہوئے قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں…. ” مستقبل کے خوفناک تصادم چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی نوع انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمتی لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظام حکمت سے نہیں مل سکتے ۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025

Loading