تعلیمات قلندر بابا اولیاء
بقا کے راستے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تعلیمات قلندر بابا اولیاء۔۔۔ بقا کے راستے )وسائل کی فراوانی اور آسائشوں کی بھرمار کے باوجود موجودہ دور میں انسانوں کو کئی قسم کے تکرات اور پریشانیوں کے باعث شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ مواصلاتی شعبے، میں محیر العقول ترقی اور معاشی نمو میں اضافے کے باوجود دنیا سے غربت ختم نہیں ہوئی ۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے کئی اور مسائل بھی پیدا ہور ہے ہیں۔
آگہی میں اضافے ، ویکسی نیشن، حفظان صحت کے اصولوں پر وسیع پیمانے پر عمل درآمد ، جدید طبی آلات سے بروقت تشخیص کے باوجود جسمانی اور نفسیاتی امراض روز بروز پھیلتے جارہے ہیں۔
معاشی و باد سماجی اقدار پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس دباؤ کے نتیجے میں خاندان کا ادارہ متاثر ہوا ہے۔ جوائنٹ فیملی کی جگہ سنگل یونٹ طرز زندگی فروغ پارہا ہے۔ اس ماحول میں عزت و احترام والے رشتے کئی لوگوں کی نظروں میں بے وقعت ہوتے جارہے ہیں۔
والدین اور اولاد میں دوریاں ہو رہی ہیں۔ بے شمار گھرانوں میں میاں بیوی کے رشتے میں اعتماد اور ایثار میں کمی آرہی ہے۔
معاشرتی سطح پر استاد اور شاگرد کا تعلق کمنٹ منٹ اور فریضے سے ہٹ کر محض مالی مفاد کے حصول کا ذریعہ بنتا جارہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ استاد کو شاگرد کی تربیت سے کوئی غرض ہے ہی نہیں۔
دنیا کے کئی معاشروں میں اپنی ثقافت اور اپنی زبان سے تعلق کم زور پڑ رہا ہے۔ اعلیٰ سماجی روایات اور اقدار کو کئی لوگ پرانے دور کی باتیں قراردے رہے ہیں۔
تعلیم کے فروغ کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی جارہی ہیں لیکن تعلیم کا مقصد صرف مادے کی تسخیراور معاش کا حصول بنالیا گیا ہے۔ انسان کے روحانی تقاضے یکسر نظر انداز کر دیئے گئے ہیں۔
جدید نظام تعلیم ایسا نصاب مرتب نہیں کر رہا جس میں انسان کی روحانی ضروریات کو بھی مد نظر رکھا گیا ہو۔ روحانی ضروریات کا مخیال رکھنا تو ایک طرف مروجہ نظام ہائے تعلیم میں اخلاقیات کے درس کا ہی مناسب طور پر خیال نہیں رکھا جارہا۔
مذہب کے ذریعے انسانوں کی فلاح اور نجات کے لیے فیض اٹھانے کے بجائے مذہبی جذبات کوسیاسی اقتدار میں حصہ لینے کے لیے استعمال کیاجا رہا ہے۔
دنیا کے کئی خطوں میں مذاہب کے ماننے والوں میں بھی برداشت اور رواداری کم ہو رہی ہے۔ کئی مسلمان ممالک میں شدت پسندی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بڑا ملک بھارت خود کو سیکولر ریاست کہتا ہے۔ سیکولر بھارت میں شدت پسند لیڈر مذ ہبی انتہا پسندی کو تیزی سے بڑھاوادے رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں تہذیبوں میں تصادم کےنظریے کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ان باتوں کے ذریعے یورپ اور امریکہ میں اسلام فوبیا پھیلایا جارہا ہے۔ بعض مغربی دانشوروں کا یہ طرز عمل کیا بجائے خود شدت پسندی کی ایک مثال نہیں ہے۔
ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ مغرب ہو یار وایت پسند مشرق، شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ بڑھ رہی ہے۔
یہ ہے موجودہ دور کا ایک عمومی منظر نامه ….. اس ماحول کے اثرات دنیا بھر میں عام آدمیوں پر شدید ذہنی دباؤ کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ آج کے دور میں ایک بات عمومی مشاہدے میں یہ آرہی ہے کہ امیر ہوں یا غریب ، اکثر لوگ بے سکون اور پریشان ہیں۔
غریبوں کی پریشانی تو سمجھ میں آتی ہے کہ سخت محنت کے باوجود کروڑوں لوگ بینادی ضروریات بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ پیٹ بھر کر اچھی خوراک، مناسب لباس، سر چھپانے کے لیے رہائش، بیمار پڑ جانے پر علاج معالجے کی سہولیات، اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم، اس دنیا میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے لیے آج بھی ایک خواب ہی ہے۔ امیروں کے ساتھ یہ مسائل نہیں ہیں۔ اچھی خوراک، قیمتی لباس، عالی شان رہائش، صحت اور تعلیم کی بہترین سہولتیں ان کی دسترس میں ہیں۔
ان سب وسائل اور سہولتوں کے باوجود اکثرا میر بھی بے سکون اور پریشان نظر آتے ہیں۔ اسٹریں، لیفشن، بے خوابی، ڈپریشن جیسے عارضے غریبوں میں کم اور خوش حال لوگوں میں زیادہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جس کے پاس بہت دولت ہے وہ بے سکون، پریشان اور ڈپریشن میں مبتلا کیوں ہے ….؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ انسان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ آئے …. ! اس سوال کا جواب حضرت محمد عظیم بر خیا، قلندر بابا اولیاء کے افکار اور تعلیمات سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کسی بھی مسئلے کا جواب ڈھونڈنا ہو تو سب سے پہلے مسئلے کی نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔ مسئلے کی نوعیت جان لینے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ پیدا کیوں ہوا ….؟
کیا آج کے دور میں انسان کا اصل مسئلہ بے سکونی یاڈ پر یشن ہے یا یہ بے سکونی اور ڈپریشن خود کسی مسئلےکا نتیجہ ہے….؟
معاملات کو روحانی بزرگوں کے اندازہ نظر سے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آج انسان کو در پیش کئی مسائل کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ خود اپنی حقیقت سے ٹھیک طرح واقف نہیں ہے۔ سائنس دان ہوں، دانش ور ہوں یا فلسفی، انسانی وجود کو سمجھنے میں فکر کی محمد ودیت اور اور نظر کی کوتاہی میں مبتلا ہوں تو درست نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ بعض حضرات کی فکر کی محدودیت اور نظر کی کوتاہی کی بڑی وجہ صرف اپنی عقل پر انحصار اور اپنے نتائج فکر پر اصرار ہے۔ نقل قدرت کی طرف سے انسان کو عطا کی جانے والی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ عقل ہی تو ہے جس کی وجہ سے انسان نت نئی دریافتیں کر رہا ہے۔ ہزاروں سال پہلے پہیئے کے ابتدائی استعمال سے لے کر اکیسویں صدی کی حیران کن ٹیکنالوجی، یہ سب عقل کے استعمال کے نتائج ہی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عقل ہر مقام پر انسان کا ساتھ نہیں
اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے چنانچہ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی کر کے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیں اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ توحیدی نقطہ نظر کے علاوہ نوع انسانی کو ایک ہی طرز فکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔“
دے پاتی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے کمالات عقل کی وجہ سے ہی ظاہر ہوئے لیکن تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود بھی انسان بے سکون اور پریشان ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محض عقل کا استعمال انسان کے سکون اور نجات کا ضامن نہیں ہے۔
انسانوں کی فلاح اور نجات کے لیے عقل کو خود بھی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس مادی دنیا میں قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر (ریسرچ) کے دوران عقل کو چند ضابطوں کا پابند رہنا بھی لازم ہے۔ اس کائنات کے خالق اللہ وحدہ لاشریک نے انسان کی تخلیق بہت عمدہ طور پر کی ہے اور خود اللہ نے انسان کو احسن تقویم قرار دیا ہے۔
ترجمہ : ہم نے انسان کو بہترین خلق کیا۔ [سورہ التین (95): آیت 4] احسن تقویم کی ایک تشریح یہ ہے کہ اپنی جسامت کے لحاظ سے انسان اس کائنات کی حسین ترین مخلوق ہے لیکن احسن تقویم کا مطلب صرف جسامت تک ہی محدود نہیں ہے۔ انسان کو جو جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں وہ بھی احسن تقویم کاہی حصہ ہیں۔
اللہ تعالی نے انسان کو علم الاسماء عطا فرمایا ہے۔ انسان اس علم سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکے، اس علم کو اپنی نوع اور دوسری مخلوقات کی بہتری کے لیے خوب استعمال کر سکے، علم الاسماء کے ذریعے اپنے خالق اپنے مالک اللہ وحد ولا شریک کو پہچان سکے، ان مقاصد کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو سوچنے سمجھنے، تجزیہ کرنے، فیصلہ کرنے کی صلاحیتں عطا کی ہیں۔ انسان کو وہ ضروری صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں جن کے ذریعہ انسان عالم اور عارف بن سکے۔ اس سفر میں انسان کی عقل اس کی مددگار رہتی ہے۔ عقل کودرست سمت سے باخبر رکھنے کے لیے قدرت نے رہنمائی کا ایک عالی شان نظام قائم کیا ہے۔ اس نظام کے کئی مدارج ہیں۔ انسان کو اس کے باطن سے بھی مدد فراہم کی جارہی ہے اور خارج سےبھی رہنمائی عطا کی گئی ہے۔
ترجمہ: قسم ہے نفس کو بنانے اور اس کوسنوار نے کی، انسان کو ودیعت کر دیا گیا ہے کہ برائی کیا ہے اور اچھائی کیا ہے۔
سورہ الشمس (91): آیات 108-107] باطن سے ملنے والی رہنمائی کو عام طور پر ضمیر کہا جاتا ہے۔ انسان کے باطن سے ملنے والی یہ مدد انفرادی رہنمائی کی ایک شکل ہے۔
انسان کی رہنمائی کا وسیع ترین نظام جس چینل کے ذریعے قائم کیا گیا نہ ہی اصطلاح میں اسے وحی کہا۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025