تلاش
قسط نمبر2
تحریر۔۔۔واصف علی واصف
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ تلاش ۔۔۔ تحریر۔۔۔واصف علی واصف)تلاش ہے۔ اپنے آپ میں جتنی صداقت میسر آئے گی، اتنا ہی صادق سے تقرب بڑھے گا۔ جس انسان کو اپنے آپ میں صداقت نظر نہ آئے ، وہ نسبت صادق سے محروم ہو جاتا ہے۔
انسان کی پہچان کا راز اس کی تلاش میں مضمر ہے۔ ہم جس شے کے انتظار میں ہیں، وہی ہماری عاقبت ہے۔ ہمیں اپنے انتظار کا کھوج لگانا چاہیے۔ بیچ کے مسافر کچے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے جھوٹے۔
اس دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں ، جو حقیقت کی تلاش کرتے ہیں۔ ان کا مدعا خالق حقیقی ہے۔ یہ تلاش نہ ختم ہونے والی تلاش ہے۔ اس سفر کا مدعا بھی سفر ہے۔ اس کی انتہا بھی سفر ہے۔ محدود کا لا محددو کے لیے سفر کسی بیان میں نہیں آسکتا۔ قطرے کو قلزم آشنا ہونے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، وہی جانتا ہے جس پر یہ مقامات اور مراحل گزرتے ہیں۔
خالق کی تلاش بعض اوقات دنیا سے فرار کی خواہش ہے۔ دنیا سے گھبرا کر ، وحشت زدہ ہو کر ، انسان خالق کا قرب تلاش کرتا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی نعمتوں کے حصول کے باوجود، اس کی محبت میں سرشار، خالق کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ حقیقت کی تلاش انہیں کسی انسان تک ہی پہنچاتی ہے اور وہ انسان انہیں راز آشنا کر دیتا ہے۔ اس کے بعد کا سفر ، جلوں کا سفر ہے۔ نور کا سفر ہے۔ اسی کائنات میں نئی کائنات کا سفر ہے۔ قطرے کا سفروصال قلزم کے بعد ان البحر کا بیان ہے اور یہ بیان ، بیان میں نہیں آسکتا۔
انسان جب کسی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے پاس وہ ذریعہ ہوتا ہے ، وہ آلہ ہوتا ہے، جس سے وہ اپنی تلاش کے مدعا کو پہچان سکے۔ اگر وہ آلہ آنکھ ہو تو حقیقت کسی چہرے، کسی منظر ، کسی نظارے، کسی جلوے ، کسی رعنائی ، کسی رنگ کا نام ہے۔ حقیقت کا چہرہ بھی ہوتا ہے۔ جدھر آنکھ اُٹھا ، ادھر ہی اس کا رنگ بھی ہوتا ہے۔ سب سے احسن رنگ حقیقت کا رنگ ہے۔
اگر حقیقت کی تلاش میں انسان سماعت لے کر نکلے تو حقیقت نفے کی شکل میں آشکار ہو گی، آواز کی صورت میں جلوہ گر ہو گی۔ ایسا متلاشی ڈور کی آواز سُنے گا۔ وہ خاموشی کی صدائے گا۔ وہ سناٹوں سے پیغام لے گا۔ اُسے آہٹیں سنائی دیں گی۔ وہ تنہا ہو گا اور حقیقت اس سے ہم کلام ہو گی۔ اس سجنے متلاشی کی سماعت ہی ذریعہ وصال حق بن جائے گی۔ ایسے انسان کو افلاک سے نالوں کا جواب آتا ہے۔ اسے آود فغان نیم شب کا پیام آتا
ہے۔ وہ سکوت سے کلام کرتا ہے۔ آنے والے زمانے اس سے بات کرتے ہیں۔ اپنی سماعت، غیر حق پر بند کردینے سے یہ راز کھل سکتا ہے۔
حقیقت کی تلاش میں انسان صرف چہرہ بن کر نکلے ، تو حقیقت آنکھ بن کر سامنے آئے گی۔ وہ آنکھ ، جو اس کے چہرے کی قیمت ہے۔ وہیں سے پہچان شروع ہو جائے گی۔ اسے ہر چہرے میں اپنا ہی چہرہ نظر آنے لگے
صداقت کا سفر ، حقیقت کا سفر ہے۔ صادق کا تقرب، حق کا تقرب ہے۔ صادق کی محبت ، حق کی محبت ہے۔ صادق کی رضا، صداقت کی سند ہے اور صداقت کی سند ، حقیقت کا وصال ہے۔ آئینہ صداقت میں جمال حقیقت نظر آسکتا ہے۔ اس کی تلاش، گوہر مقصد کی تلاش ہے اور یہی تلاش، حاصل ہستی ہے اور یہی حاصل، عین ایمان ہے۔انسان کی پہچان کار از اس کی تلاش میں مضمر ہے۔ ہم جس شے کے انتظار میں ہیں، وہی ہماری عاقبت ہے۔ ہمیں اپنے انتظار کا کھوج لگانا چاہیے۔ بیچ کے مسافر بچے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے جھوٹے۔
گا۔ وحدت الوجود کا یہ مقام بیان میں نہیں آسکتا۔ یہ صرف مشاہدہ ہے، تلاش کرنے والوں کا حاصل۔ کچھ لوگ حقیقت کی تلاش میں نکلتے ہیں ، سفادت کے جذبے لے کر۔ وہ اپنا مال حقیقت پر نار کرنے کے لیے ساتھ لیتے ہیں۔ حقیقت سائل کے روپ میں اُن سے واصل ہو گی۔ ضرورت مند ، سائل، محتاج لیکن سخی کے ساتھ سلاوت کرنے والے انداز کے ساتھ ۔ ستادت وصال حق کا ذریعہ ہے۔ اگر انسان محتاج بن کر اس کی تلاش میں نکلے تو حقیقت سخی بن کر سامنے آئے گی۔ ہماری تلاش کے روپ کے مقابل حقیقت نے روپ اختیار کرنا ہے۔
جو لوگ تلاش کے مقدس سفر میں دل لے کر نکلتے ہیں ، وہ حقیقت کو دلبری کے انداز میں پاتے ہیں۔ انہیں کائنات کا ہر ذرہ ایک تڑپتا ہوا دل محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت کی ادائے دلبری ایسے متلاشی کو اپنا ذاکر بناتی ہے۔ وہ حقیقت کا ذکر کرتا ہے، حقیقت اس کا ذکر کرتی ہے۔ یہ عجیب سلسلے ہیں۔
دل والے متلاشی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں، جہاں ذکر ، ذاکر اور مذکور باہم ہوں ۔ یہ وہ مقام ہےجہاں چند ساعتیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔
کچھ ذہین لوگ عقل سلیم کے ذریعے حقیقت کی تلاش کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ یہ سفر بڑا محتاط ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا کے عبرت کدے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ وہ تخیر آشنا ہو کر حقیقت آشنا ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی نتیجہ بے سبب نہیں ہوتا اور کوئی سبب بغیر نتیجے کے نہیں ہو سکتا۔ اتنی بڑی کائنات بغیر سبب کے نہیں اور اس سب کا ایک پیدا کرنے والا ضرور ہے اور وہی مستبب ہے۔ عقل والے سبب سے مستب کا سفر کرتے ہیں۔ وہ نعمتوں سے منعم کا نشان معلوم کرتے ہیں۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہر چیز انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ انسان زندہ ہونے کے باوجود زندگی کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ مرے بغیر موت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ وہ خالق سے راز آشنائی کا سوال کرتے ہیں اور ان کو رموز مرگ وحیات سے آگاہ کر دیا جاتا ہے تو وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلمت لرب العالمین … اور اس تعلیم کا نتیجہ آگ گلزار بن جاتی ہے اور وصال حق کی منزل آسان ہو جاتی ہے“
غرضیکہ ، تلاش جو انداز اختیار کرے ، حاصل تلاش اُسی انداز میں سامنے آئے گا اور سب سے اچھا انداز تلاش تقرب صادق ہے ، اعتماد شخصیت صادق ہے۔ یہ تلاش عین ایمان ہے۔ سب سے بچے اور اکمل انسان نے حقیقت کے بارے میں جو فرما دیا ، وہی حقیقت ہے۔اسی کی اطاعت کرنا ہے۔ نئے انداز فکر کی بدعت میں مبتلا نہیں ہونا ۔
صداقت کا سفر ، حقیقت کا سفر ہے۔ صادق کا تقرب، حق کا تقرب ہے۔ صادق کی محبت، حق کی محبت ہے۔ صادق کی رضاء صداقت کی سند ہے اور صداقت کی سند ، حقیقت کا وصال ہے۔ آئینہ صداقت میں جمال حقیقت نظر آ سکتا ہے۔ اس کی تلاش گوہر مقصد کی تلاش ہے اور یہی تلاش ، حاصل ہستی ہے اور یہی حاصل، عین ایمان ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روخانی ڈائجسٹ اکتوبر 2024