تم خوش تو ہو
تحریر۔۔۔عامر عظیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تم خوش تو ہو۔۔۔ تحریر۔۔۔عامر عظیم)تین سال پہلے نرسری اسکول سے لے کر کالج اور پھر یونیورسٹی تم نو تک ساتھ ساتھ رہنے والا بچپن
کا ایک دوست اسلام آباد منتقل ہو گیا۔
یہ رنگیلا، شوخ مزاج، سب کو خوش کرنے والا دوست کم سنی میں ہی والدین کے سایہ سے محروم ہو گیا تھا۔ اس کے چچانے اس کی پرورش و تعلیم کی ذمہ داری
نبھائی۔ ہمارے پڑوس میں ہی اس کا گھرتھا۔ ہمارا دوست اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ، ہمارے دوست نے والدین کی کمی کے دکھ کا کبھی اظہار نہیں کیا بلکہ زندہ دلی سے کہا کرتا تھا ” میں اکیلا نہیں ہوں میرا احساس میرے ساتھ ہے”۔
وہ ہر وقت خوش رہتا ، ہر بات میں خوشی تلاش کر لینے کا فن اسے آتا تھا۔ میں نے اسے زندگی میں کبھی روتا ہوا، د کھی ، اداس یا مایوس نہیں دیکھا تھا۔
شادی کے بعد وہ اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ اس کا سسرال اسلام آباد میں تھا۔ سر سرکاری ادارے میں اچھے عہدے پر تھے اس لیے شادی سے پہلے ہی اچھی جگہ اس کی ملازمت کا بندوبست بھی ہو گیا تھا۔ سسر نے ایک مکان اپنی بیٹی کے نام کر رکھا تھا، کار بھی اسے دے رکھی تھی۔ وہ بہت ٹھاٹ بھاٹ سے رو رہا تھا۔
دوست کے جانے پر کمی کا بہت احساس ہوا ہے۔ میں روز اسے فون کر تا تھا، خوب باتیں ہوتیں، پھر باتیں کم ہوتے ہوتے پانچ دس منٹ تک رہ گئے اور پھر مہینوں تک بات نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ ہماری مصروفیت تھی۔ میرے دوست کا ایک بیٹا تھا
اور ہماری بھی شادی ہو چکی تھی۔ تین سال کے عرصے میں ہماری ایک بار بھی ملاقات نہ ہوئی۔ ایک مرتبہ ضروری کام سے ہمارا اسلام آباد جانا ہوا۔ ہم نے اپنے دوست کو فون کیا اور اپنے آنے کی اطلاع دی ، وہ بہت خوش ہو گیا۔ ہم نے اس سے اس کے گھر کا پتہ معلوم کیا تو کہنے لگا گھر مت آنا، اچھا دفتر کا پتہ بتادو، دفتر بھی نہ آنا۔
ہم سوچ میں پڑ گئے منہ دفتر نہ گھر ،مسئلہ کیا ہے۔ ہم تفکرات میں گم تھے اس نے ہیلو ہیلو کہہ کر ہمیں مخاطب کیا اور کہا ” تم فلاں ہوٹل کے ویٹنگ ہال میں آجانا میں وہاں تمہارا منتظر رہوں گا۔ ہم مقررہ وقت پر ہوٹل ، نجس و تفکر چہرے پر سجائے، حواس باختہ ہوٹل میں داخل ہوئے۔ ویٹنگ ہال میں ہمارا دوست ہمارا منتظر تھا، ہمیں دیکھتے ہی ہماری طرف اپکا مگر نہ سلام ، نہ دعا منہ گلے لگا، ہمارا بیگ اٹھا یا اور سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔ پہلی منزل پر پہنچ کر جیب سے چابی نکالی اور کمرے کا دروازہ کھولا ، ہم اندر داخل ہوئے تو
دروازہ بند کر دیا، پھر کھڑکیوں کے پردے برابر گئے۔ ہم حیران و پریشان سب کچھ کیے رہے، ذہن سکے کے عالم میں تھا اس نے ہمیں بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کیا حرف آتا ہے۔ اور ہمارے گلے لگ ! کر رونے لگا۔ مضبوطی سے چمٹ گیا۔
اس کے دل کا گداز کسی گہرے دکھ کی نشاندہی کر رہا تھا۔ کافی دیر تک وہ ہمارے گلے لگا رہا ، ہم وجہ پوچھتے تو رونے لگتا، کچھ نہ پوچھتے تو اس کی ہچکیاں سنائی دیتیں۔ دکھ اور آنسوؤں میں پہلی بار ہم نے اپنے اس خوش مزاج دوست کو دیکھا، کچھ سمجھ نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد اس کے آنسو تھے تو ہماری رکی ہوئی سانسیں واپس آئیں۔ ہم ساتھ رکھے صوفے پر بیٹھ گئے۔ اس کرب و دکھ کی وجہ پوچھی تو وہ مزید اداس ہو گیا، ہم نے کہا بھا بھی کا رویہ اچھا نہیں ہے
نہیں۔“
ساس سسر پیر کی جوتی سمجھتے ہیں ” نہیں۔“
سالے سالیوں کی فرمائش پوری کرتے کرتے تھک گئے ہو
“نہیں”۔
تو پھر ایسے اکیلے میں ہمارے ساتھ ملاقات کی کیا وجہ ہے۔ وہ ہچکیاں لینے لگا۔
ارے پاگل ہو گیا ہے کیا۔ اب ہماری قوت برداشت ختم ہو گئی تھی عد ہاتوں کو برداشت تجھے کیا ہو گیا ہے جامداخلت ، میکے کی بے بیگم کی میں نہ مانوں کو جوان ہو کر کہا۔
میرے یار۔ میں نے ایک مرد ہے اور اسے تو میرا دکھ مجھ سیت وہ کس سے کرے سکتا ہے، اس لیے نہیں بھی اس کی مردانگی پر کہ تو میرا دوست ہے بلکہ اس لیے کہ تو ایک مرد بھی ہے۔ وہ ٹھہر گیا اور سامنے میز پر رکھی پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگالی اور میں سوچنے لگا اس کے دکھ کا شجرہ کہاں سے ملتا ہے۔
اس نے پانی کی بوتل میز پر دوبارہ رکھی اور بھرائی ہوئی آواز میں یار یار کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا، ہم بھی اس کے پاس جا کھڑے ہوئے ۔ اس نے اپنے ہاتھ ہمارے کندھوں پر رکھے اور کہا:
میں ایک سوال سن سن کر تنگ آگیا ہوں، میری بیوی خوش مزاج ہے ، ساس سسر
سالے سالیاں سب خیال رکھنے والے ہیں مگر میں ایک سوال سن سن کر تھک گیا ہوں۔“ کیا، ہماری دلچسپی اب دوبارہ بڑھ گئی۔ جسے دیکھو بیگم سے پوچھتا ہے ” تم خوش تو ہو“۔
ساس، سسر اپنی بیٹی سے پوچھتے ہیں
” تم خوش تو ہو“۔
سالے سالیاں بیگم کی خالہ ماموں، تایا ، چاچا، کزنز، سہیلیاں سب اس سے یہی پوچھتی ہیں
” تم خوش تو ہو“۔
حتی کہ میرے سگے چاچا، چاچی ، کزنز بھی مجھے
سے یہی پوچھتے ہیں کہ ”دولہن خوش تو ہے “۔
او گدھے ، اس میں دکھ کی کیا بات ہے۔ اس کی بات سن کر ہم بیزار ہوگئے اور اس پر غصہ
بھی آنے لگا۔
اس نے دکھ بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا کہ ” میں خوش بھی ہوں یا نہیں ” یہ دکھ ہے۔ سب کیوں سمجھتے ہیں کہ میں خوش ہوں، سب کیوں سمجھتے ہیں کہ شوہر سے پوچھنا ضروری نہیں کہ وہ خوش تو ہے، یہ دکھ ہے
میرا، میرے یار۔
بات کچھ کچھ سمجھنے میں آئی تو ہم نے دوست سے کہا ہاں یار ….! تو کہتا تو ٹھیک ہے مگر تو تو مرد ہے، مرد بن یار، ایسی باتوں پر اتنا د کھی ہونا مردانگی
کے خلاف ہے۔“ مرد کیا انسان نہیں ہو تا، یہ مرد ہونے کا ایک المیہ ہے کہ کوئی شوہر سے نہیں پوچھتا کہ وہ خوش ہے۔ مرد ہے اس سے کیا پوچھنا۔ شوہر نہ اپنے باپ کو بتا سکتا ہے نہ اپنی ماں کو منہ بہن کو نہ بھائی کو، کس منہ سے بتائے وہ تو ایک مرد ہے۔
مرد بہت کی ناگوار باتوں کو برداشت کر جاتا ہے، سسرال کی بے جامد اخلت ، میکے کی بے
جا تنقید ، طعنے بھول جاتا ہے ، بیگم کی میں نہ مانوں کو در گزر کر دیتا ہے، کیونکہ وہ ایک مرد ہے اور اسے ایسا ہی کرنا چاہیے ، شکوہ شکایت وہ کس سے کرے اور کیوں کرے ،اس میں بھی اس کی مردانگی پر حرف آتا ہے۔
عورت سسرال میں اور اپنے شوہر کے ساتھ کتنا ہی خوش رہے پھر بھی پو چھا جاتا ہے کہ تم خوش تو ہو“۔ مرد کتنا ہی زچ ہو جائے، تنگ آجائے ، اس سے نہیں پوچھا جاتا کہ تم خوش تو ہو“ کیونکہ وہ مرد ہے۔
دوست کے سمجھانے پر ہماری سوچ کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم اپنے دوست کا دکھ سمجھ گئے کہ عورت سے بار بار یہ پوچھا جانا عورت کو بے جا اہمیت دینا ہے ۔ یہ اہمیت شوہر کے نصیب میں نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مرد ہے۔
دوست کا دکھ جان کر ہم نے بھی مرد کی حمیت کو ایک طرف رکھ دیا اور رندھی ہوئی آواز میں کہا: ہاں یار، تو کہتا تو سچ ہے، زوجہ محترمہ سے کوئی پوچھے ” تم خوش تو ہو تو بھرائی ہوئی اور ہلکی آواز میں یا آنسو پوچتے ہوئے کہتی ہیں ”ہاں میں
خوش ہوں “….
میرا دوست بہت جذباتی ہو گیا اور کہنے لگا ” یار روتے ہوئے کوئی خوش ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔ اس کے بعد ہم دونوں نے گلے مل کر دل کا بوجھ ہلکا کیا اور ایک دوسرے سے پوچھا ” تم خوش تو ہو “
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2016