Daily Roshni News

جی ہاں! وہ نیک دل بوڑھا سقراط تھا۔

جی ہاں! وہ نیک دل بوڑھا سقراط (Socrates) تھا۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل) اناکسی میندرس نے سوال اٹھایا: “محض پانی سے زندگی کیسے جنم لے سکتی ہے؟” پھر خود ہی جواب دیا کہ “زندگی گیلی مٹی سے جنم لیتی ہے۔” یعنی حیات کے آغاز کے لیے دو بنیادی عناصر درکار ہیں: پانی اور مٹی۔ زندگی کے آغاز کے بعد، یہ مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتی ہے، اور یوں حیوانات، پرندے، مچھلیاں، کیڑے مکوڑے وغیرہ وجود میں آتے ہیں۔ اسے ہم ڈارون کا پیش رو کہہ سکتے ہیں۔

ہیر الکلٹس (Heraclitus) (475 تا 335 قبل مسیح) نے سوال کیا: “محض پانی اور مٹی زندگی کو کیسے جنم دے سکتے ہیں؟” اور خود ہی جواب دیا: “آگ کی مدد سے۔” یعنی زندگی کے بنیادی عناصر تین ہیں: پانی، مٹی اور آگ۔ مزید برآں، اس نے کہا کہ یہ دنیا کسی دریا کی طرح مسلسل بہہ رہی ہے اور تغیر پذیر ہے۔

زینو آف ایلیا (Zeno of Elia) نے کہا کہ “یہ کثرتِ وجود محض ایک سراب ہے، درحقیقت یہ سب ایک وحدت کے مختلف مظاہر ہیں۔” بعد میں اس نظریے نے “وحدت الوجود” کی شکل اختیار کی۔

پارمینائیڈس (Parmenides) نے حسیات پر سوال اٹھایا: “ہمارے حواس ہمیں دھوکہ دیتے ہیں، اشیاء ویسی نہیں ہیں جیسی نظر آتی ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے حواس اور تجربات پر مکمل یقین نہیں رکھنا چاہیے۔”

ایمپے ڈوکلیز (Empedocles) نے کہا کہ “زندگی چار عناصر—ہوا، آگ، پانی اور مٹی—سے جنم لیتی ہے۔” مزید یہ کہ “مادہ ازلی اور ابدی ہے، اس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ ہی انجام۔”

اناکسا غورث (Anaxagoras) نے ایک اور بنیادی سوال اٹھایا: “اگر زندگی محض مادہ ہے، تو اس میں حرکت کیسے پیدا ہوتی ہے؟” اور خود ہی جواب دیا کہ “یہ حرکت ایک آفاقی ذہن کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔”

ڈیموکریٹس (Democritus) نے دریافت کیا: “مادہ کس چیز سے بنا ہے؟” اس نے جواب دیا: “انتہائی چھوٹے، ناقابل تقسیم ذرات (Atoms) سے، جو ہر شے کی بنیاد ہیں۔” مزید یہ کہ “دیوتا اور مذہب محض انسانی اختراعات ہیں، اور انسان کا اصل مقصد صرف خوشی حاصل کرنا ہونا چاہیے۔”

یہ تمام فلسفی وہ سوالات اٹھا رہے تھے، جن کے جوابات آج ایک عام طالب علم کو بھی معلوم ہیں۔

لیکن اصل اہمیت جوابات کی نہیں بلکہ ان سوالات کی ہے جو اس دور میں اٹھائے گئے۔ یہی سوالات فلسفے کی اصل روح ہیں، اور انہی کے ذریعے انسانی عقل نے ارتقا کا سفر طے کیا۔

اب وقت تھا کہ کوئی ایسا دانشور سامنے آتا، جو صرف ایک یا دو نہیں، بلکہ بے شمار سوالات اٹھاتا۔ ایسے وقت میں ایک نیک دل، بوڑھے فلسفی نے ان سوالات کو اپنایا اور فلسفے کو ایک نئی جہت عطا کی۔

جی ہاں! وہ نیک دل بوڑھا سقراط (Socrates) تھا۔

Loading