حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادریؒ
)قسط نمبر(2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادریؒ)
گھرانے کے شادی کا پیغام آیا، یہ گھرانہ صوبہ سرحد کے عظیم المرتبت ولی اللہ ، غوث خراسان حضرت سید علی ترمذی المعروف پیر بابا (شیخ نظام الدین تھا نیری کے مرید ) کا گھرانہ تھا۔ یہ صاحبزادی جس کے ساتھ آپ کی شادی ہوئی حضرت پیر بابا کی پوتی تھی ۔ اس نیک اور پاکیزہ سیدہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو فرزند عطا فرمائے ، ایک کا نام شاہ محمد غوث اور دوسرے کا نام سید علی رکھا گیا۔ ابوالبرکات سید حسن نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز پشاور کو بنایا اور پشاور میں سات سال تبلیغ کے بعد اپنے مرید عنایت اللہ گجراتی کو یہاں کی خانقاہ کا کام سپر د کر کے خود کشمیر روانہ ہوئے۔
آپ 1089ھ میں پشاور سے روانہ ہو کر دھمتوڑ پہنچے ، اس جگہ ایک شخص مظفر خان آپ کے مرید ہوئے۔ مظفر خان نے چند روز تک سید حسن کی میزبانی کی ۔ جب آپ وہان سے روانہ ہونے لگے تو مظفر کان نے عرض کی، اس کے علاقے کو ارد گرد کے قبائل سے خطرہ ہے ۔ روایت ہے کہ سید حسن نے مظفر کان کو کامیابی کی دعادی اور ایک تلوار بھی خان کو عطا فرمائی۔ بعض میں مظفر خان نے اتنی کامیابی حاصل کی کہ تمام پہاڑی علاقہ اس کے قبضہ میں آگیا۔ اس نے دریا کو عبور کر کے اپنے نام پر ایک شہر مظفر آباد بسایا۔
سید حسن بادشاہ نے 1091ھ میں کشمیر پہنچ کر تشنگان ہدایت کو علوم باطنی سے سیراب کیا۔ یہاں خواجہ عبد الرحیم قادری، میر افضل کا نام سید علی رکھا گیا۔ ابوالبرکات سید حسن نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز پشاور کو بنایا اور پشاور میں سات سال تبلیغ کے بعد اپنے مرید عنایت اللہ گجراتی کو یہاں کی خانقاہ کا کام سپر د کر کے خود کشمیر روانہ ہوئے۔
اندارابی، شاہ عنایت اللہ قادری آپ کے فیوض سے بہرہ اندوز ہوئے۔ سفر کشمیر کے زمانہ میں آپ نے طریقہ شطاریہ میں بابا عثمان قادری شطاری سے فیض حاصل کیا۔ آپ چھ ماہ کشمیر و سری نگر میں رہے، اس عرصہ میں آپ نے تبلیغ کے ساتھ اپنی سخاوت اور بخشش کا طریقہ جاری رکھا۔ یعنی آپ کے لنگر مبارک سے ہر دوقت درویشوں کو کھا نا ملتا تھا، آپ جہاں کہیں تشریف لے گئے اور جس جگہ قیام کیا، اپنے لنگر سے سینکڑوں غربا، مسافروں ، عاجزوں اور بے وسیلہ لوگوں کی خدمت فرماتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے در سے تقریباً چھ سو افراد روزانہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے اور جو مفلوک الحال ہوتے ان کوکپڑا بھی عنایت کرتے۔ آپ کی تبلیغ اور خدمت کی شہرت اتنی عام ہوئی کہ ہر طرف سے لوگ جوق در جوق آنے لگے۔ چھ ماہ بعد آپ نے یہاں سے واپسی کا ارادہ کیا، عقیدت مندوں نے روک لیا، چنانچہ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سید محمد فاضل کو خلافت عطا فرما کر وہاں رہنے کی تلقین کی۔ اور خود واپس تشریف پشاور لے آئے۔ آپ نے تین بار کابل کا سفر بھی کیا۔ پہلی بار تو آپ کا بل اور اس کے مضافات کی سیاحت کی، اس سفر میں علماء فقراء اور مشائخ سے ملاقات کی ۔ خود ی مستفید ہو کر اوروں کو مستفیض کیا۔ اس سفر میں مشائخ نقشبندیہ سے ملاقاتیں کیں، یہ سفر تقریباً و ماہ تک رہا۔ واپسی کے وقت گورنر کابل نواب کراچی امیر خان سلسلۂ بیعت میں داخل ہوا، دوبارہ اس کی دعوت پر آپ کا بل تشریف لے گئے ، یہاں پر بھی خانقاہی نظام جاری کیا۔ تیسری بار پھر آپ موسم گرما گذارنے کے لئے کابل تشریف لے گئے۔ اس مرتبہ آپ نے یہ سفر بالکل تنہائی میں گزارا۔ مریدین کی تعلیم و تربیت آپ کی خلفاکرتے۔ آپ کم ہی مجالس میں شریک ہوتے۔ ایک دن اچانک صبح کے وقت آپ نے نواب امیر خان حاکم اعلیٰ کو بلایا اور فرمایا اے امیر اس ملک سے کوچ کرنا چاہیے کہ یہاں ایک بڑے خطرے کے نازل ہونے کی علامت دیکھ رہا ہوں۔ اس دن تو نواب صاحب نے تساہل کے کام لیا لیکن دوسرے روز آپ نے نواب کو پھر تاکید کی۔ نواب نے جواب دیا۔ جو کچھ آپ فرماتے ہیں اس پر میرا یقین کامل ہے کہ مگر ادھر شاہی نوکری کا معاملہ ہے میں اس خطہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ اس لئے میں مجبور ہوں۔ آپ نے اپنے مریدین کے ساتھ فوراً رخت سفر باندھا اور کوچ کر دیا، چند دنوں کے بعد آپ پشاور پہنچ گئے۔ ادھر کابل میں وبا پھیل گئی۔ نواب امیر خان بھی اس دارِ فانی سےکوچ کر گئے۔ آپ سے کئی کرامات صادر ہوئیں، ایک مرتبہ آپ دو آبہ ہشتنگر کی طرف تشریف لے گئے۔ دو آبہ کے راستے میں دریائے کابل بہتا تھا۔ جس کو بذریعہ کشتی عبور کیا جاتا تھا۔ آپ اس وقت عراقی گھوڑے پر سوار تھے اور خادم گھوڑے کی رکاب تھامے ہو ا تھا۔ جب آپ کشتی کے قریب پہنچے تو آپ نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور گھوڑا کشتی میں سوار ہونے کی بجائے دریا میں کود پڑا۔ وہ خادم جور کاب تھامے ہو ا تھا وہ بھی دریا میں گر پڑا۔ تمام مرید و معتقد پریشان ہو گئے اور ایک کہرام مچ گیا۔ لیکن چند منٹوں کے بعد آپ سواری و خادم سمیت دریا کے دوسرے کنارے پر نظر آئے ۔ تمام راستے آپ کے مریدین کی زبان پر یہی واقعہ رہا۔ آپ نے مریدین کو منع فرمایا اور کہا کہ یہ سب کچھ جو تم نے دیکھا بچوں کا کھیل ہے سلوک و طریقت کا اصلی مقصد کچھ اور ہے نیز سالک کے لئے کرامات جتلانا سلوک اور درجات کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
سید حسن ، ایک دفعہ اٹک سے پشاور کی طرف تشریف لا رہے تھے ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ آپ وظائف کی قلمی کتاب آپ کے خادم سے دریائے اٹک میں گر گئی ۔ خادم بہت پریشان ہوا لیکن وہ آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کرنے سے قاصر رہا۔ جب آپ نے آٹھ کوس کی مسافت طے کرنے کے بعد قیام کیا اور تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد حسب معمول و ظائف کی کتاب طلب کی، تو خادم پر ہیبت طاری ہوئی اور وہ جواب نہ دے سکا۔ جب آپ نے دوبارہ کتاب مانگی تو اس نے تمام واقعہ بیان کر دیا۔ آپ نے جواب دیا، مجھے تم نے اُس وقت اطلاع کیوں نہ دی پھر آپ نے فرمایا:اُس دریا کی طرف جاؤ اور کہو کہ اے دریا،
سید حسن اپنی کتاب تم سے چاہتا ہے۔ اس خادم نے عرض کیا جناب کتاب تو اٹک کے قریب دریامیں گری تھی۔ آپ نے فرمایا اے بے خبر اللہ تعالیٰ کے نظام کو تو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ یہ خادم آپ کے اس ارشاد کے مطابق دریا پر چلا گیا اور بآواز بلند وہی کچھ کہا۔ ادھر زبان سے یہ الفاظ نکلے اُدھر کتاب سطح آب پر نمودار ہوئی۔ خادم نے فوراً کتاب کو اُٹھا لیا۔
کتاب جوں کی توں خشک تھی۔ جب آپ کا بل میں تھے تو یہ افواہ پھیل گئی کہ شہنشاہ اور نگ زیب عالمگیر وفات پاگئے، یہ افواہ کابل، قندھار اور غزنی تک پھیل گئی، کابل میں سراسیمگی کا عالم ہو گیا۔ نواب امیر خان گورنر کابل جناب سید حسن شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی پریشانی بیان کی، آپ نے سن کر فرمایا: “اے امیر مطمئن رہ، بادشاہ بالکل تندرست ہے تین دن صبر کر صحیح خبر آجائیگی۔ جب تیسرے دن صبح ہوئی تو جہان آباد (دہلی) سے قاصد خطوط لے کر آیا کہ بادشاہ بخیر و سلامت ہے۔ گورنر کابل نواب امیر خان اور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر اور اور دیگر حکام وقت سے آپ کو تحالف، مال و اسباب، وظائف اور جاگیریں عطا ہوتیں جو آپ نے غریبوں ، بیواؤں اور مفلوک فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دیتے۔ مخلوق خدا پر اس قدر نرمی اور شفقت اور مہربانی رکھتے تھے جس طرح بیٹے پر باپ رکھتا ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی بیمار ہوتا اس کی عیادت کے لئے وہاں تشریف لے جاتے، نیز اس کے علاج اور ادویہ متعلقہ علاج کیلئے بھی رقوم حتی الامکان اپنی جیب سے ادا کرتے ۔ قرض دار کو اس کےقرضہ سے نجات دلاتے۔ بسا اوقات جب آپ کے پاس رقم نہ ہوتی تو آپ قرضہ اپنے ذمہ لے کر پھر ادا فرما دیتے ، اور عموماً جب آپ امر با المعروف اور نہی عن المنکر کے لئے باہر دورے پر تشریف لے جاتے تو نادار ، مفلو کالحال اور غریب لڑکیوں کی شادی اپنی گرہ سے خرچ کر کے کرا دیتے۔ یہی برگزدہ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنے بلند اخلاق اور حسن سلوک کی بدولت ہندوستان کے گوشے گوشے میں اسلام کے نور کو چمکایا اور سرور کائنات صلی اللی علم کی سنت کا احیا کیا۔
سلسلہ قادریہ کے یہ بزرگ حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ قادری 12 ذی قعده 1115ھ بروز جمعہ 92 برس کی عمر میں پشاور میں انتقال کر گئے۔ ہزار ہا لوگوں نے آپ نے نماز جنازہ ادا کی اور جس مقام پر خواب میں غوث اعظم نے نشاندہی فرمائی وہیں پر آپ کی تدفین کی گئی۔ آپ کا مزار اقدس یکہ توت پشاور میں مرجع خلائق ہے ، جہاں ہر سال کی طرح آپ کا عرس اس سال 21 ذیقعد کو منایا جائے گا۔ آپ نے صوبہ سرحد (موجوده نام خیبر پختون خواه) و کشمیر ٢ میں سلسلہ قادریہ کو اس عروج و کمال تک پہنچایا کہ آج جبکہ 325 برس آپ کو بیت چکے تھے۔ سرزمین سرحد پنجاب، افغانستان اور کشمیر کے گوشہ گوشہ میں آپ کی روحانی تعلیم کے چشمے اہل رہے ہیں اور لوگ ان سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2019