حق اليقين
تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ حق اليقين۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)سے ترتیب دے کر نظم و نثر کی صورت میں ادب کے اعلیٰ شاہ کار وجود میں لاتا ہے۔ انسان کی جمالیاتی حس کی وجہ سے ہی موسیقی کی دلکش اور وجد آفرین دھنیں ترتیب پاتی ہیں۔ انسانی معاشروں میں ثقافت کی رنگارنگی دراصل انسان کی جمالیاتی جس کی وجہ سے ہی ہے۔ جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل بھی انسان کی ضروریات میں شامل ہے تاہم ان تقاضوں کا تعلق انسان کی بقاء سے نہیں ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل ہوا، پانی، روشنی کی طرح انسانی وجود کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل نہ ہونے پر کوئی شخص مر نہیں جائے گا لیکن انسان کے باطنی وجود کو سمجھنے اور انسانی سوچ و فکر کے ارتقاء کے لیے اعلیٰ جمالیاتی جس کی بھی ضرورت ہے۔ ادب کی مختلف اصناف نثر ، شعر و نغمہ، موسیقی ، مصوری، آرٹ کی کوئی بھی شکل، گلیوں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں ترتیب ورنگ آمیزی ، اندرونی و بیرونی ڈیزائننگ، مختلف اقسام کے دلفریب ملبوسات، سامان آرائش و زیبائش ، زیورات و غیره یہ سب انسان کے جمالیاتی ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انسان کے جمالیاتی تقاضوں کی تعمیل اس کی شخصیت میں نکھار ، سلجھاؤ اور ٹھہراؤ کا سبب بنتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کئی سماجی ادب آداب Manners & Etiquettes) بھی دراصل انسان کے جمالیاتی ذوق کے باعث وجود میں آئے۔ صاف ہوا ، متوازن خوارک اور مناسب ورزش، جسم کی صحت کے لیے ضروری ہیں اسی طرح ذہن کی صحت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے ادب یا آرٹ کی کسی بھی شکل کے ذریعہ تخلیقی عمل سے کسی نہ کسی طرح کی وابستگی بھی ضروری ہے۔
جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کی اہلیت فراہم کرنے کے لیے انسان کو ایک دوسری CHIP عطا کی گئی ہے۔ انسان بنیادی طور پر دو شعور سے مرکب ہے، ایک شعور دوسرا لا شعور (شعور اور لاشعور کی مزید قسمیں بھی ہیں) مادی یا طبعی علوم کا تعلق انسان کے شعور سے ہے ۔ جمالیاتی تقاضوں اور ان سے وابستہ علوم وفنون کا یا اس دوسری CHIP کا تعلق کچھ تو شعور سے ہے اور کچھ لاشعور سے ہے یعنی یہ CHIP شعور کی دو کیفیات کی حامل ہے۔ فنون لطیفہ کی تخلیق میں فنکار پر شعوری کیفیات کا غلبہ ہو تو انسان کی مادی کیفیات کے حوالے سے تخلیقات سامنے آتی ہیں۔ صنف مخالف کی کشش بھی ایک ماڈی جذبہ ہے۔ جنگ و جدل معرکہ آرائی، حقوق طلبی وغیرہ بھی ماڈی معاملات ہیں۔ شاعری یا افسانے ، جن میں صنف مخالف کی خوبصورتی، اس سے وصل کی خواہش یا اس حوالے سے دیگر جذبات کا اظہار ہو یہ سب ماڈی اور شعوری کیفیات ہیں۔ رزمیہ نغمے اور ترانے بھی ماڈی اور شعوری کیفیات کے زیر اثر تخلیق پاتے ہیں۔ صنف مخالف کی کشش کے باعث ابھرنے والا جذ بہ چاہے اُسے محبت کہہ لیا جائے یا اُس جذبے کا کوئی اور نام رکھ لیا جائے، ماڈی جذبہ ہے۔ ان سب کا تعلق ماڈی یا شعوری حواس یا پہلی CHIP سے ہے مگر عشق عشق کی بنیاد ماڑی جذبات پر نہیں ہے۔ فنون لطیفہ کی تخلیق میں کسی فنکار پر ، شاعر پر ، صوفی پر ، لاشعوری کیفیات غالب ہوں تو ایسی تخلیقات وجود میں آتی ہیں جو عام انسانی سطح سے بہت بلند ہوتی ہیں۔ ایسی بعض تخلیقات کو الہامی بیان یا الہامی شاعری جیسے خطابات بھی دیے گئے۔ اس ضمن میں مولانا جلال الدین رومی ، بابا فریدہ سلطان باہو، شاہ عبد الطیف بھٹائی ، بابا بلھے شاہ، رحمن بابا، بابا تاج الدین ناگپوری ، رومی کے مرید ہندی اقبال اور قلندر بابا اولیاء کے صوفیانہ کلام کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مادی علوم کی CHIP اور جمالیات وفنون لطیفہ کی CHIP کے علاوہ انسان کو ایک اور بہت خاص اہمیت عطا کی گئی ہے۔ یہ روحانی یا باطنی علوم کو سمجھنے کی استعداد اور باطنی طور پر تصرف کی صلاحیت ہے۔ اسے ہم تیسری CHIP کہہ سکتے ہیں۔ یہ تیسری CHIP لا شعوری یا روحانی علوم پر مشتمل ہے۔ بچے خواب، چھٹی حس، کشف، الہام وغیرہ کا تعلق انسان کے لاشعوری حواس یا اس تیسری CHIP سے ہے۔ اگر ہم لاشعوری حواس یا روحانی علوم کی اس CHIP کے مختلف فنکشن کو سمجھ لیں، اس CHIP کو روبہ عمل لانا Activate) کرنا سیکھ لیں تو ہم اس کائنات کے کئی اسرار ورموز سے واقف ہو سکتے ہیں۔ اس CHIP کے فنکشن سمجھ میں آنے لگیں تو انسان یہ جاننے لگتا ہے کہ عشق کیا ہے۔ عشق کی بنیاد مادی جذبات اور ذاتی اغراض پر نہیں ہے۔ عشق کا تعلق انسان کے باطن سے ہے، عشق انسان کی اصل یعنی اس کی روح سے ایک چشمہ کی طرح پھوٹ کر صحرا میں آب رواں بن جاتا ہے۔ سمعیہ و بلال، اویس قرنی، حسین، حسن بصریؒ، جعفر صادق ، رابعہ بصری ، بایزید، جنید ، رومی، معین الدین اجمیری رخسرو، شاہ لطیف اور بے شمار صحابہ و اولیاء …. یہ سب عشق کے استعارے ہیں ؎ عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفی عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کو سمجھنا ہو تو انسان کو اپنے باطنی وجود یعنی روح کو سمجھنا ہو گا۔ روح کو سمجھنے کے لیے لاشعوری کیفیات کو سمجھنا یعنی اس تیسری CHIP کے مختلف فنکشن کو سمجھناور ان سے کام لینا سکھنے کی ضرورت ہے۔ روحانی علوم کے ذریعہ یا لاشعور کی اس CHIP کے ذریعہ انسان لاشعور کی زبان سمجھ سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو لا شعور کی یہ زبان سمجھ میں آنے لگے تو وہ
اپنے وجود کی حقیقت کو ، اس دنیا کو ، اس کائنات کو بہتر طور پر سمجھنے اور عرفان الہی کی راہوں پر چلنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ مادی علوم کی CHIP کے ذریعہ انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی۔ جمالیاتی CHIP کے ذریعہ انسان کی شخصیت کو نکھار اور انسانی معاشروں کو توازن و ہم آہنگی جیسی خوبیاں میسر آتی ہیں۔ روحانی علوم کی تفہیم یعنی اس تیسری CHIP کے ذریعہ انسان کی روحانی نظر بیدار و متحرک ہوتی ہے۔ اللہ وحدہ لاشریک پرایمان کی پختگی، نیت کے اخلاص ، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی، خود احتسابی جیسی صفات پروان چڑھتی ہیں۔ روحانی علوم کے فروغ کے ذریعہ انسانی معاشروں میں اخوت و بھائی چارہ، احترام آدمیت، عفو و در گزر، رشک و تحسین ، اللہ کی شکر گزاری اللہ کی محبت، حضرت محمد صلی علیم کا عشق اور آپ سی میڈیم کی اطاعت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ حضرت محمد کے وارث اولیاء اللہ اپنی روحانی اولاد، اپنے شاگردوں، دوستوں اور مریدوں کی تربیت اس نہج پر فرماتے ہیں کہ سالک کا دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو جائے ۔ موجودہ دور کے تقاضوں اور آج کے انسان کی ذہنی سطح کے پیش نظر سلسلہ عظیمیہ کے امام حضور قلندر بابا اولیاء اور حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے تربیتی نصاب اس طرح ترتیب فرمایا ہے کہ انسان مادی تقاضوں اور جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی تقاضوں کو بھی ٹھیک طرح سمجھ کر انکی بہتر طور پر تکمیل کے قابل ہو سکے۔ انسان کی زندگی کا اصل کا مقصد تو اپنے خالق، اپنے مالک اللہ وحدہ لاشریک کا عرفان پانا اور اللہ کی کچی اور خالص بندگی کرتا ہے۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2016