Daily Roshni News

حق اليقين ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر1

حق اليقين ۔۔۔

تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔۔

۔قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ حق اليقين )اس دنیا میں پیدا ہونے والی ہر مخلوق اپنی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہے۔ قدرت اس کام میں ہر مخلوق کی فراخدلی سے مدد کر رہی ہے۔ اس زمین پر ہر مخلوق کی عمومی ضروریات میں آکسیجن اور خوراک سر فہرست ہیں۔ ان کے بعد دوسرے تقاضے اور ضروریات ہیں۔ انسان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہوا، پانی اور خوراک انسان کی لازمی ضروریات ہیں۔ ہوا کے بغیر چند منٹ، پانی کے بغیر چند دن اور خوارک کے بغیر ، انسان، چند ہفتوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کے تمام ارکان اپنے انفرادی وجود سے ، اپنی نوع سے اور دوسری مخلوقات سے واقف ہیں۔ کبوتر خود کو پہچانتا ہے۔ نرکبوتر کو اس بات کا علم ہے کہ اس کی رفیق مادہ کبوتر ہے۔ یہ دونوں اس واقف ہیں۔ خود کو کو علم بات سے واقف ہیں کہ ہماری غذا کیا ہے ، ہمیں پیاس لگے تو پانی پینا ہے۔ نر کبوتر اور مادہ کبوتر صنف مخالف کی کشش کے اثرات سے واقف ہیں۔ نرکبوتر اور مادہ کبوتر کو معلوم ہے کہ اُن کی نسل کیسے چلے گی۔ وہ جانتے ہیں کہ اپنی نو مولود اولاد کو غذا کس طرح کھلائی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ ایک نوع کی مخلوق کافی حد تک دوسری نوع کی مخلوق کو بھی پہچانتی ہے۔ کبوتر جانتا ہے کہ بلی کون ہے اور اسے بلی سے اپنا بچاؤ کس طرح کرنا ہے۔ درخت اپنے ہم جنس درخت کو پہچانتا ہے۔ پہاڑ خود کو اور دوسرے پہاڑوں کو پہچانتا ہے۔ زمین اپنے آپ سے اور خود پر آباد تمام مخلوقات سے واقف ہے۔ چاند کو معلوم ہے کہ میں چاند ہوں۔ چاند کو زمین اور دوسرے سیاروں سے بھی واقفیت ہے۔ ایک نظام شمسی خود کو اوردوسرے نظام ہائے شمسی کو پہچانتا ہے۔ کائنات کے تمام ارکان خود سے اور دوسرے ارکان سے واقف ہیں۔ کائنات کا ہر رکن اپنی مادی ضروریات کو سمجھتا ہے اور ان ضروریات کی تکمیل کے طریقوں سے بھی واقف ہے۔ دوسری تمام مخلوقات کی نسبت انسان کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ ضروریات کا تعلق زندگی کی بقا اور نشو نما سے ہے جبکہ بہت سی ضروریات ایسی ہیں جن کے پورا نہ ہونے سے آدمی کی مادی زندگی کو تو کوئی خطرہ نہیں ہو گا البتہ ان ضروریات کے پورا نہ ہونے سے انسان بہت کچھ پانے سے محروم رہ جائے گا۔ اس کی شخصیت نامکمل یا ادھوری رہ جائے گی۔ آئیے ! ان ضروریات پر بات کرتے ہیں۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیتیں اور اوصاف عطا فرمائے ہیں۔ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت اور فضلیت یہ ہے کہ اسے علم الاسماء عطا کیا گیا ہے۔ انسان کی ایک خوبی یہ ہے کہ خالق کائنات اللہ کی چاہت اور اللہ سے قربت کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ یہاں یہ امر ذہن میں رہے کہ اللہ کی محبت صرف انسان کا خاصہ نہیں ہے ، دیگر مخلوقات بھی اللہ کی محبت سے سرشار اپنے اپنے طور پر اس کی حمد و ثناء میں مصروف ہیں تاہم یہ انسان ہی ہے جسے اللہ نے اپنی معرفت کی اہلیت سب سے زیادہ عطا کی ہے۔ حقیقت کو پالینے کے لیے انسان کو اللہ کی نشانیوں کا فہم عطا کیا گیا۔ علم کی پیاس، علم کی طلب انسان کے اندر موجود ہے۔ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس نکتہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ جو لوگ یا جو قومیں علم کے حصول سے غفلت برتتی ہیں وہ اپنے فطری تقاضوں کو چل رہی ہوتی ہیں۔

اس زمین پر انسان کے لیے علم بنیادی طور پر تین“ ہیں۔ یہ تین علم انسان کو اس کے تین مختلف تقاضوں کی تکمیل کے لیے آگہی اور اور اک عطا کرتے ہیں، راستے اور طریقے فراہم کرتے ہیں۔

ان میں سے ہر علم کو موجودہ دور کی اصطلاح میں ہم ایک CHIP بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر انسان کو قدرت کی جانب سے تین CHIPS عطا کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک علم یا CHIP کا تعلق انسان کے مادی تقاضوں یا مادی ضروریات سے ہے۔ اسے ہم روٹی روزی ، رہن سہن اور بقائے نسل کا علم کہہ سکتے ہیں۔ تمام مادی اور طبعی علوم اس CHIP میں شامل ہیں۔ مادی علوم کی یہ CHIP کچھ فرق کے ساتھ زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کو عطا کی گئی ہے۔ اس CHIP سے ملنے والی آگہی کے تحت اس زمین پر بسنے والی دوسری تمام مخلوقات اپنی مادی ضروریات سے واقف

ہیں اور انہیں پورا کرنے کے طریقے جانتی ہیں البتہ انسان مادی علم میں دوسری تمام مخلوقات سے کہیں زیادہ بر تر ہے۔ مثال کے طور پر انسانی آنکھ روشنی میں ایک خاص حد تک دیکھ سکتی ہے۔ انسان اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا ۔ انسانی کان 20 ہر ٹڑ سے نیچے یا 20 ہزار ہر ٹڑ سے اوپر کی آوازیں نہیں سن سکتے جبکہ بہت سے جانور اندھیرے میں دیکھ سکتے ہیں اور کئی جانور یا بعض پرندوں کی حد نظر Visibility انسانوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کئی جانوروں کی حس سماعت انسانوں سے بہت بہتر ہوتی ہے ، اسی طرح کئی جانوروں کی سونگھنے کی حس انسانوں سے بہت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ کئی دوسرے حیوانات کے مقابلے میں انسان کی محدود حد نظر ، محدود حس سماعت یا سونگھنے کی محدود حس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کا دائرہ عمل محدود ہو گیا۔ انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعہ قدرت کی مختلف تخلیقات میں تصرف کر کے انہیں اپنے کام میں لا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان نے اندھیرے میں بھی دیکھنے کی ضرورت محسوس کی تو اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کام میں لا کر مختلف ذرائع سے روشنی حاصل کر لی۔ اس کی مثالیں چراغ، دیا، لالٹین کے بعد الیکٹرسٹی سے حاصل کردہ روشنی اور انفراریڈ شعاعوں سے حاصل کردہ Vision ہے۔ مادی علوم کے تحت انسان کو عناصر میں تصرف کی اہلیت بھی دی گئی ہے۔ پانی یا دیگر ذرائع سے بجلی کا حصول اس تصرف کی نمایاں مثال ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹر نیٹ وغیرہ بھی اس تصرف کی وجہ سے ظہور میں آئے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں انسان کی پیش رفت مادی علوم کی وسعتیں ہیں، ایک خاص CHIP کی ایکٹیویشن ہے۔ دوسری مخلوقات کے برخلاف انسان صرف مادی تقاضوں کی حامل مخلوق نہیں ہے۔ انسان کو قدرت کی جانب سے جمالیاتی تقاضے بھی عطا کیے گئے ہیں۔ ان جمالیاتی تقاضوں کے تحت ہر انسان میں ایک جمالیاتی حس موجود ہے۔ یہ جمالیاتی حس ہی ہے جس کی وجہ سے انسان مختلف رنگوں کو باہم ملا کر ایک خوش نما منظر تخلیق کرتا ہے، مختلف الفاظ کو خاص ترکیب۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مارچ 2016

Loading