فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے قطر اور امریکاکی طرف سے غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے نئے مجوزہ معاہدے پر ثالثوں کو مثبت جواب دے دیا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے جنگ بندی سے متعلق نئی تجاویز پر مشاورت مکمل کر لی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم نے اپنا مثبت جواب ثالثوں(قطر اور مصر) کو پہنچا دیا ہے۔
حماس نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اس جنگ بندی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مذاکرات کے ایک نئے دور میں فوری طور پر سنجیدگی کے ساتھ شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق قطر اور امریکا کی جنگ بندی کی تجاویز کی اسرائیل پہلے ہی منظوری دے چکا ہے اور اگر حماس راضی ہے تو اسرائیلی وفد مذاکرات شروع کرنے کے لیے فوری دوحہ روانہ ہو جائےگا۔
اسرائیلی میڈیاکاکہنا ہےکہ امریکا چاہتا ہے اگلے ہفتے نیتن یاہو کےدورہ واشنگٹن میں جنگ بندی کا اعلان ہو جائے، ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر حماس کو اس بات کی ضمانت دیں گے اور خود اعلان بھی کریں گے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کے لیے شرائط سے اتفاق کرلیا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق 60 روز کے دوران جنگ کے خاتمے کےلیے تمام پارٹیز کے ساتھ مل کرکام کریں گے جبکہ قطر اور مصر کے حکام حتمی تجاویز پیش کریں گے۔
غزہ جنگ بندی کن مراحل پر مشتمل ہوگی؟
اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ جنگ بندی کی تجویز میں 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ہو گی اور اسی کے ساتھ ساتھ 18 اسرائیلیوں کی لاشوں کی 3 مرحلوں میں واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینیوں کی رہائی گزشتہ ڈیل کی طرح ہی ہوگی، حماس کی جانب سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کی رہائی کےلیے نام دیے جائیں گے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اُن اسیروں کے نام بھی دیے جائیں گے جن کی رہائی سے اسرائیل اب تک انکاری رہاہے اور اسرائیل کے لیے یہ مطالبہ ماننا مشکل ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل غزہ میں امریکی کمپنی کےذریعے امداد کا موجودہ طریقہ برقرار رکھنے کا مطالبہ کرے گا جبکہ حماس امریکی کمپنی کی بجائے اقوام متحدہ کے ذریعے امداد کی تقسیم کا طریقہ کار بحال ہونےکی خواہشمند ہے۔
حماس کی جانب سے روزانہ انسانی امداد کے 400 سے 600 ٹرک غزہ میں داخل ہونے کا بھی مطالبہ کیا جائے گا۔