Daily Roshni News

خطبہ حجتہ الوداع۔۔۔( انسانی حقوق کا چارٹر )

خطبہ حجتہ الوداع

( انسانی حقوق کا چارٹر )

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خطبہ حجتہ الوداع۔۔۔ انسانی حقوق کا چارٹر )۱۰ہجری میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریبًا سوا لاکھ مسلمانوں کے ساتھ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ تاریخ اسلامی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حج مبارکہ کو “حجتہ الوداع ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں واقع ایک چھوٹی پہاڑی جبل رحمت پر اپنی اونٹنی قصویپر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو ” خطبہ حجتہ الوداع ” بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خطبہ کو بجا طور پر نوع انسانی کے لیے چارٹر کی حیثیت حاصل ہے۔

خطبہ کی ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثناء بیان فرمائی اور پھر فرمایا:

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے اور کوئی اس کا ساجھی نہیں، اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا اسی کی ذات نے باطل کی ساری قوتوں کو زیر کیا۔ لوگوں! میری بات سنو……… میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ ہم کسی محفل میں اس طرح یکجا ہوسکیں گے۔

لوگوں!…….. اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ: انسانو! ہم نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو۔ تم میں عزت اور توقیر والا اللہ کی نظر میں وہی ہے جو اللہ کے نزدیک زیادہ تقویٰ والا ہے۔

نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر……. کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے…….. ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے……. تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے……..…اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے ، خون و مال کے سارے مطالبے اور انتقام میرے پاؤں تلے روندی جا چکے ہیں۔ لوگوں ! تمہارے خون و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے حرام کر دی گئی ہے…… ان کی اہمیت ایسے ہے جیسے…… تمہارے دین کی اور اس ماہ مبارک ( ذی الحج ) کی حاص کر اس شہر میں ہے…….… تم سب اللہ کے آگے جاؤ گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں بازپرس فرماۓ گا……… دیکھو میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کچے و خون کرنے لگو…… اگر کسی کے پاس امانت رکھوائ جاۓ تو وہ اس بات کا پابند رہے کہ رکھوانے والے کو امانت واپس پہنچائے۔

لوگو! ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے……. اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے….. اپنے غلاموں کا خیال رکھو….. انہیں وہی کہلاؤ …….. جو خود کھاتے ہو…… اور ایسا ہی پہناؤ جیسا خود پہنتے ہو……. دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا ہے……..زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں…… پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں وہ میرے خاندان کا ہے…… ابن ربیعہ بن الحارث گے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا……اب میں معاف کرتا ہوں…… دور جاہلیت کا سود اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا…… پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں عباس بن عبد المطلب کے خاندان کا سود ہے…… اب یہ ختم ہو گیا ہے …… قرض قابل ادائیگی ہے…… عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہئیے…… تحفہ کا بدلہ دینا چاہیے…… اور جو کسی کا ضامن بنے وہ تاوان ادا کرے…… کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ……… اپنے بھائی سے کچھ لے سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے…….. خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔

دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے حقوق ہے……… اس طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہے ………عورتوں سے بہتر سلوک کرو……… کیونکہ ………وہ تمہاری پابند ہے ……… چنانچہ اس بارے میں اللہ کا لحاظ رکھو……… کہ تم نے انہیں ………اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں۔

میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں……… اگر تم اس پر قائم ہو گے تو گمراہ نہیں ہوگے وہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے……… اور ہاں دیکھو……… دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے لوگ ……… انہیں باتوں کے سبب ہلاک کر دیئے گئے۔

شیطان کو اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی ہے کہ ……… اب اس شہر میں اس کی عبادت کی جائے لیکن اس کا امکان ہے………کہ ایسے معاملات جنہیں تم کم اہمیت دیتے ہو ………اس کی بات مان لی جائے ……… اور وہ اسی پر راضی ہے ………اس لیے تم اس سے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کرنا۔

لوگو! اپنے رب کی اطاعت کرو ……… پانچ وقت کی نماز ادا کرو ……… مہینہ بھر کے روزے رکھو ……… اپنے مال کی زکوٰۃ خوشدلی کے ساتھ دیتے رہو ………اللہ کے گھر کا حج کرو ……… اور اپنے اہل امر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے ……… اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا ……… اب نہ باپ کے بدلہ ……… بیٹا پکڑا جائے گا ……… نہ بیٹے کا بدلہ ……… باپ سے لیا جاۓ گا۔

سنوں! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ ……… یہ احکام اور باتیں ان لوگوں کو بتا دیں ……… جو یہاں نہیں ہے ……… ہو سکتا ہے کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔

لوگو! تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا ……… بتاؤ تم کیا جواب دوگے؟

لوگو نے جواب دیا کہ ………ہم اس بات کی شہادت دیں گے ……… کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت پہنچا دی ……… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق رسالت ادا فرمایا ……… اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔

یہ سن کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا : کہ

اے اللہ ! گواہ رہنا ……… اے اللہ ! گواہ رہنا ……… اے اللہ ! گواہ رہنا

( حضرت ابوبکر صدیق ۔ مسلم القسامتہ والمحاربین۔ ح 4383)

Loading