خلائی جہاز سے بچ کر رہیں
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احمد نعیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ خلائی جہاز سے بچ کر رہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر احمد نعیم)مئی کے دوسرے ہفتے میں شام کے کھانے کے بعد ہلکی ٹھنڈی ہوا کا لطف لینے کے لیے آپ گھر سے باہر نکل کر ٹہل رہے ہیں کہ اچانک آسمان پر ایک عجیب سی روشنی نمودار ہوتی ہے۔ ایک چمکتی ہوئی لکیر جو آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی شہابیہ (meteor) فضا میں داخل ہوا ہو۔ آپ فوراً اپنی کوئی دیرینہ خواہش ایک دعا کی شکل میں لبوں پر لے آتے ہیں کہ شاید ٹوٹتے تارے کو دیکھ کر آپ کی کوئی پرانی حسرت پوری ہو جائے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ آپ کی حسرت اب بھی ادھوری ہی رہ جاتی ہے کیونکہ ایک تو شہاب ثاقب ٹوٹتا تارہ نہیں ہوتا اور دوسرا یہ روشنی کسی عام خلائ پتھر کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک انسانی ساختہ خلائی جہاز کے سبب پیدا ہوئی ہوگی جو نصف صدی سے خلا میں خاموشی سے گردش کر رہا تھا۔
یہ ہے کوسموس 482 (Cosmos 482)، سوویت یونین کا وہ خلائی جہاز (spacecraft) جو 1972 میں زہرہ (Venus) کی طرف روانہ کیا گیا مگر اپنی منزل تک پہنچنے میں ناکام رہا اور گزشتہ پچاس برس سے زمین کے مدار (orbit) میں بے یارو مددگار چکر کاٹ رہا تھا جیسے کوئی پروانہ شمع کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے اور جب تک شمع سے ٹکرا کر جھلس نہ جائے اسے چین نہیں ملتا۔ شاید اب کوسموس 482 کے لیے ہجر کی آزمائشیں ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے اور ماہرین کے مطابق 8 سے 11 مئی 2025 کے درمیان یہ زمین کی فضا (atmosphere) میں دوبارہ داخل ہو کر زمین کی سطح تک آ کر اپنے سیارے سے گلے مل سکتا ہے۔
کوسموس 482 (Cosmos 482) سوویت یونین کا ایک خلائی جہاز (spacecraft) تھا جو 1972 میں اس وقت کے بڑے سائنسی اہداف میں سے ایک سیارہ زہرہ (Venus) تک پہنچنے کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔ اس خلائی جہاز کو خاص طور پر زہرہ کے نہایت گرم، تیزابی اور شدید دباؤ سے بھرپور ماحول کا سامنا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔
مگر سوال یہ ہے کہ 50 سال تک خاموشی سے زمین کے گرد بھٹکنے کے بعد اب اسے آخر کیا سوجھی کہ یہ زمین کی جانب واپس آ رہا ہے؟۔
دراصل کوسموس 482 واپس اس لیے آ رہا ہے کیونکہ یہ خلائی جہاز اصل میں زہرہ (Venus) کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے یہ زمین کے مدار سے باہر نہیں نکل سکا۔ جب کوئی خلائی جہاز اپنے مطلوبہ راستے پر نہ جا سکے اور زمین کے گرد ایک غیر مستحکم مدار (unstable orbit) میں پھنس جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ کششِ ثقل (gravity) اور فضائی مزاحمت (atmospheric drag) کے اثرات اس کی بلندی کم کرتے جاتے ہیں۔ لہٰذا کوسموس 482 چونکہ تقریباً 50 سال سے نچلے مدار میں گردش کر رہا تھا اس لیے اس کی رفتار اور بلندی میں بتدریج کمی آتی رہی۔
اب تقریباً پانچ دہائیوں کے بعد وہ لمحہ آ گیا ہے جب یہ مدار میں مزید قائم نہیں رہ سکتا اور زمین کی فضا میں دوبارہ داخل ہو رہا ہے۔ یہ عمل “مداری زوال” (orbital decay) کہلاتا ہے جو اکثر ایسے خلائی مشنز کے ساتھ پیش آتا ہے جو غیر مستحکم مدار میں پھنس جاتے ہیں اور جنہیں واپس لانے یا موثر طریقے سے کنٹرول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کوسموس 482 مئی 2025 کے دوسرے ہفتے میں 8 سے 11 مئی کے درمیان زمین کے ماحول (atmosphere) میں داخل ہو سکتا ہے اور اس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ یہ کہاں گرے گا؟۔
اس سوال کا درست جواب دینا بہت مشکل ہے لیکن چونکہ سطح زمین کا زیادہ تر حصہ سمندر پر مشتمل ہے، اسی لیے کہ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اس کے سمندر میں گرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم اس امکان کو سوفیصد نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے کچھ ٹکڑے کسی خشکی یا انسانی آبادی والے علاقے میں بھی آ سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان نے کوسموس 482 کو زہرہ کے انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنے کے لیے نہایت مضبوط بنایا تھا اور اب گھر کا یہی چراغ گھر کو آگ لگانے واپس انسانوں کے پاس آ رہا ہے۔ اس کی پائیدار بناوٹ کی بدولت عین ممکن ہے کہ اس کے کچھ اجزاء زمین کی فضا میں ہوری طرح جلنے سے بچ جائیں گے اور سطح زمین تک آنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو ایک اندازہ ہے کہ اس کے حصے 150 میل فی گھنٹہ کی رفتار (speed) سے زمین سے ٹکرا سکتے ہیں۔ یاد ریے کہ یہ رفتار شہابیوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے اور اسی لیے آسمان کی طرف نظر رکھنے والوں کو شاید یہ ایک آہستہ حرکت کرنے والے شہابیے کی مانند دکھائی دے جو زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی روشنی میں لپٹ جائے گا۔
یہ خلائی جہاز یا اس کا ملبہ دنیا کے کس علاقے میں گر سکتا ہے، بھی ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر انسان جاننا چاہے گا۔
کوسموس 482 کے زمین پر گرنے کے مقام کے بارے میں ابھی مکمل یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا مدار مسلسل بدل رہا ہے اور دوبارہ داخلے (re-entry) کے وقت کئی عوامل اس کے راستے پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں جن میں زمین کی فضا کی کثافت، شمسی سرگرمی (solar activity) اور جہاز یا ملبے کی گردش (tumbling motion) کا زاویہ اور انداز اہم ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ خلائی جہاز یا اس کے ملبے کا بیشتر حصہ کسی سمندر میں گرے گا۔ پھر بھی اگر یہ خشکی پر گرتا ہے تو اس کی راہ ممکنہ طور پر تقریباً 52 درجے شمال سے 52 درجے جنوب کے عرض البلد (latitude) کے درمیان ہوگی یعنی یہ دنیا کے اس خطے میں گر سکتا ہے جس میں امریکہ، یورپ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا کے بہت سے گنجان آباد ممالک آتے ہیں اور پاکستان، چین، بھارت اور بنگلہ دیش بھی ان میں شامل ہیں۔
اب آتے ہیں ایک خوفناک سوال کی جانب کہ کیا ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے؟۔
خوش قسمتی سے اس سوال کا جواب ہے کہ نہیں، ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ زمین پر خلائی ملبے کے گرنے کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال ہزاروں ٹن خلائی ملبہ زمین کے ماحول میں داخل ہوتا ہے جس میں سے زیادہ تر فضا میں جل کر ختم ہو جاتا ہے یا سمندر میں جا گرتا ہے۔ کوسموس 482 کے معاملے میں بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ یہ کوئی بڑا خطرہ نہیں بنے گا۔ لیکن چونکہ اس کے کچھ حصے زمین تک پہنچ سکتے ہیں، چنانچہ سائنسدان اس کی حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے اور اگر یہ کسی حساس علاقے کی طرف بڑھے تو عوام کو پیشگی اطلاع دی جا سکے۔
اس واقعے کی اہمیت صرف سائنسی نہیں بلکہ تاریخی بھی ہے۔ کوسموس 482 نہ صرف ایک ناکام مشن کی نشانی ہے بلکہ ایک ایسے دور کی علامت بھی ہے جب زمین سے باہر کے جہانوں کو فتح کرنے کی انسانی خواہش اپنے عروج پر تھی۔ یہ خلائی دوڑ (space race) کا زمانہ تھا جب سوویت یونین اور امریکہ خلا میں سبقت لینے کی بھرپور کوششوں میں مصروف تھے۔ کوسموس 482 بنی نوع انسان کی اسی بہادرانہ خواہش اور عظیم خواب کی ایک جھلک ہے کہ انسان ایک دن دوسرے سیاروں تک پہنچے گا چاہے اس کے لیے کتنی ہی ناکامیاں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں۔
اگر مئی 2025 میں آپ رات کو آسمان کی طرف دیکھیں اور کوئی عجیب سی روشنی آپ کی نظروں سے گزرے تو ممکن ہے کہ آپ خلائی تاریخ کے ایک اہم لمحے کے گواہ بن رہے ہوں گے۔ یہ یقیناً ایک ایسا نایاب منظر ہوگا جو شاید انسانی تاریخ میں دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔
ڈاکٹر احمد نعیم سے منقول