Daily Roshni News

خواتین ناولسٹس ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

خواتین ناولسٹس

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خواتین ناولسٹس ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )میں خود ایک  خاتون بھی ہوں اور مصنف بھی ہوں اس لیے کسی بھی خاتون کو میری تحریر کو اپنی توہین یا اپنی تحاریر پر بے جا تنقید نہیں سمجھنا چاہیے۔میں نے زندگی میں بہت کم خواتین ڈائجسٹس پڑھے ہیں وہ بھی صرف اس مجبوری کے تحت کے کچھ اور پڑھنے کو نہیں تھا۔کسی نے وہ ڈائجسٹس دیے تو انہیں ہی پڑھ لیا۔یہ اس دور کی بات ہے جب انٹرنیٹ عام نہیں تھا کجا کہ پی ڈی ایف یا ای بکس عام ہوتیں۔

   اس ناپسندیدگی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر ناول یا کہانی کے چند ہی ٹاپکس ہوتے ہیں ۔ایک بڑی سی جوائنٹ فیملی، دسیوں کزنز، کبھی کوئی بہت حسین  اور پھوہڑیا کوئی قبول صورت مگر ہر فن مولا لڑکی جس کے سب دیوانے ما سوائے اس کزن کے جس سے اس کی شادی ہوتی ہے۔

یا پھر کوئی یتیم لڑکی جس کی بیوہ ماں اسے بہت ناز و نعم سے پالتی ہے اور وہ پسند کی شادی کرتی ہے یاارینج مگر سسرال اور شوہر ظالم نکلتے ہیں۔ وہ چپ چاپ سسرال اور شوہر کا ہر ظلم ایسے برداشت کرتی ہے جیسے دیوار یا پتھر ہو۔چند سال بعد سب اس کےڈائی ہارڈ فین بن کر اس سے معافی مانگ لیتے ہیں اور پھر ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔

 خواہ غریب ہو یا امیر شادیوں کے فنکشنز امبانی فیملی کی طرح، برائیڈل شاور، بیچلرز پارٹی، میلاد ختم، ڈھولکی، مایوں، مہندی، شیندی، بارات ولیمہ اور ان سب فنکشنز پر ان لڑکے لڑکیوں کا بھی زبردست ڈانس گانے کا پروگرام جو عموما دین دار دکھائے گئے ہوتے ہیں۔ بزرگ مرد و زن جو ویسے شاید بچوں کو پھر کوئی عقل تمیز سکھا دیتے ہیں مگر ان فنکشنز پر خود ناچنے گانے ڈھولک بجانے کے لیے اصرار کرتے ہیں۔ ہر وہ ہندوانہ عسائیوں اور یہودیوں والی رسم ہر موقعہ پر ادا کی جاتی ہے جس کی اسلام میں ممانعت ہوتی ہے۔ خواہ ویلنٹائن ڈے ہو، برتھ ڈے،مدر فادر ڈے، ویڈنگ اینورسری، گود بھرائی، مکلاوہ، چوتھی کی رسم، چلہ، جہیز،بارات، جمعرات،  چالیسواں یا دیگر رسومات جن سے میں واقف نہیں ہوں۔ یا بجائے نماز روزے نوافل ذکر کے مدد مانگنے کے مزارات پر جا کر دھاگے باندھنا یا پیروں سے دعا کروانا تعویذ لینا۔

   ہر ہیرو مکمل اور خوبصورت ترین، اعلی تعلیم یافتہ، اعلی عہدے پر فائز یا بزنس مین، بڑا سا گھر، گاڑی، ہر سہولت رکھتا ہے۔ہیروئین کبھی اسی جیسی اور کبھی غریب ترین مگر پورے میک اپ لیٹسٹ فیشن کے کپڑوں جوتوں جیولری سے لیس مگر بالکل سادہ اور سادگی میں بھی حسین ترین لگتی ہے۔کبھی ہیرو کے آفس میں جاب کرتے ہوئے،  کسی سڑک پر اس کی گاڑی سے ٹکرا کر، بارش میں یا ہڑتال کی وجہ سے ٹرانسپورٹ نہ ملنے پر ہیرو کی آفر پر لفٹ لینے پر، کسی بہن کزن کے ساتھ کالج پڑھنے کی وجہ سے کالج سے پک اینڈ ڈراپ کرتے، شادی یا کسی اور تقریب میں ہیرو سے ٹکرا جاتی ہے اور پہلی نظر میں ہی اتنی محبت ہو جاتی ہے کہ ہیرو ساری دنیا سے ٹکر لے کر اس سے شادی کر کے ہی دم لیتا ہے۔

    کبھی دو کزنز ایک دوسرے سے بچپن سے لیلی مجنوں والی محبت کرتے ہیں،  بعض اوقات نکاح منگنی بھی ہوئے ہوتے ہیں مگر والدین کی کسی ناراضگی کی وجہ سے شادی میں رکاوٹیں ہوتی ہیں جنہیں 5 ۔8 ہزار الفاظ کے ناول میں عبور کر کے آخر کار ہیرو ہیروئین مل ہی جاتے ہیں۔

کبھی شادی تو ہو ہی جاتی ہے مگر ساس نندیں ہماری پڑدادی پڑنانی کے زمانے کے ٹیکٹکس یعنی  سارے دن بہو سے خدمت لینا شوہر کے آنے پر اسے  کہنا کہ تمہاری بیوی سارا دن آرام کرتی ہے ہم سے بات نہیں کرتی۔اس کے بنائے سالن میں نمک زیادہ ڈال دینا، اس کے میکے پر پابندیاں اور ان کی تذلیل، بات خود کر کے اس پر الزام دھرنا۔ سیڑھیوں پر تیل ڈال کر اسے گرانا۔حالانکہ آج کل موبائل بچوں کے پاس بھی ہوتا ہے بہو یا ساس اس پر ان کو کیپچر کر  کے اپنی برات کر سکتی ہیں۔

یا بہو ایسے فراڈ کر کے سسرال کے خلاف میاں کو بھڑکا کے الگ گھر میں لے جاتی ہے۔اسی طرح کی ساری کہانیاں جن کا اختتام اکثر کسی ایسی بات پر ہوتا ہے جو ہیرو سرگوشی میں ہیروئین کے کان میں پھونکتا ہے اور وہ شرم سے لال گلابی ہو جاتی ہے۔بعض اوقات شادی کے پہلے دن یا بچے کی ڈلیوری کے بارے میں ایسے ڈائیلاگز اور منظر کشی کی جاتی ہے کہ عصمت چغتائی، منٹو اور سڈنی شیلڈن کو بھی مات دے دی جاتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ ہماری خواتین ہر وہ چیز جو حرام اور باعث فتنہ ہے کیوں لکھتی ہیں؟؟؟ کیا وہ نہیں جانتیں کہ مسٹر اور مس پرفیکٹ نامی انسان اس دنیا میں کہیں موجود نہیں۔کیا انہیں معلوم نہیں کہ جوائنٹ فیملی، کزنز کا اختلاط، شادی بیاہ پر ناچ گانا،  سسرال کا بہو پر یا بہو کا سسرال پر ظلم، سازشیں،  میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوانا، نامحرم کے درمیان کسی بھی قسم کی دوستی، تعلق،میل جول، بات چیت،  اور پھر آخری حد پار کرنا سب حرام ہیں۔

    مجھے یقین ہے سب کو ان سب باتوں کا علم ہے پھر کیوں وہ لڑکیوں کو ایسی فضول  توقعات وامیدیں باندھنے پر مائل کرتی ہیں کہ انہیں مسٹر پرفیکٹ ملے جو کسی شہزادی کی طرح انہیں ٹریٹ کرے۔ان پر صدقے واری جائے یا شادی ایک فلم جیسی حسین ، ذمہ داریوں سے مبرا اور انجوامنٹ کا نام ہے۔

یا دوسری انتہاوہ اور اس کا خاندان  مسٹر بیسٹ ہو لیکن لڑکی ستی ہو جائے ۔کیوں وہ ایسا کچھ نہیں لکھتیں جو ہمارے بچوں کو حقیقت کی دنیا سے روشناس کروائے اور اس میں زندہ رہنا سکھائے؟

    سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ایسے تمام فضول ناولز پر ڈرامے بھی بننے لگ گئے ہیں ۔جن کی وجہ سے جو بچے پڑھنے کا شوق نہیں رکھتے تھے وہ بھی مستفید ہونے لگے ہیں۔کس گھر میں اسکول یا کالج کے فرسٹ ائیر کی بچی اپنے کلاس فیلو کے ساتھ سارا دن اور رات گئے تک گھومتی ہے کھاتی پیتی شاپنگ کرتی ہے انجوائے کرتی یے اور والدین کا خبر تک نہیں ہوتی؟ کون سا اسکول کالج لڑکے لڑکیوں کو گھومنے پھرنے اور اظہار محبت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔کیوں یہ خواتین اچھے کردار لکھ کر اچھا ماحول لکھ کر حقیقی زندگی کو بہتر بنانے میں کردار ادا نہیں کر سکتیں؟؟؟ عمیرہ احمد کے ڈرامے  ناولز میں مضبوط کردار اور شخصیت  دکھائے جاتے ہیں۔اکثر اختتام بھی بڑا حقیقی ہوتا ہے۔آج کل ڈرامہ رد میں بھی کچھ ایسا ہی دکھایا جا رہا ہے۔عورت مرد کی اور مرد عورت کا محتاج کیوں دکھایا جاتا ہے۔حالانکہ شادی سے پہلے بھی وہ مکمل شخصیت کے مالک ہوتے ہیں پھر یہ کیوں دکھایا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص نہ ملے یا بچھڑ جائے تو زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ اگر بندہ اپنے والدین بہن بھائیوں اولاد کے بغیر رہ سکتا ہے تو باقی کوئی رشتہ ایسا اہم نہیں ہوتا کہ اس کی جدائی یا نہ ملنا اسے مار دے۔خدارا اپنے قلم کا درست استعمال کیجئے۔اس فینٹسی ورلڈ سے نکل کر حقیقی زندگی کو پورٹرے کیجئے تاکہ ہمارے بچے معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں۔انہیں ہر رشتے کو اس کا مقام دینے کے طریقے سکھائیں اپنے فرائض کیسے با احسن طریقےسے نبھائے جاتے ہیں اس کا درس دیں۔تاکہ معاشرے میں کچھ سکون آئے۔

Loading