Daily Roshni News

خواجہ نظامُ الدین اولیاؒ کے پاس ایک تیرہ سالہ لڑکا اپنے والد کے ساتھ آیا۔

خواجہ نظامُ الدین اولیاؒ کے پاس ایک تیرہ سالہ لڑکا اپنے والد کے ساتھ آیا،

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )خواجہ نظامُ الدین اولیاؒ کے پاس ایک تیرہ سالہ لڑکا اپنے والد کے ساتھ آیا، والد بیٹے کو اندر لے جانا چاہتا تھا، لیکن! بیٹے نے اندر جانے سے انکار کر دیا اور والد سے کہا! ”آپ اندر تشریف لے جائیں، میں یہیں باہر کھڑا آپ کا انتظار کرتا ہُوں۔“

والد نے مزید اصرار نہیں کیا، بلکہ! اندر چلا گیا۔

والد کے جاتے ہی اُس لڑکے نے فوراً ایک منظوم رقعہ لکھا، جس میں فارسی کے دو شعر اسی وقت موزوں کیے تھے۔

تو آں شاہی کہ برایوان قصرت کبوترگر نشیند بازباز گردو۔

غریبے  مستمند  سے  برور  آمد  بیاید  اندروں یا باز گردو۔

ترجمہ!

تم بادشاہ ہو کہ اگر تمھارے محل پر کبوتر بیٹھے تو باز بن جائے ، ایک غریب حاجب مند دروازے پر باریابی کا منتظر ہے، وہ اندر آئے یا واپس جائے۔

منظوم رقعہ اندر گیا اور اسی وقت حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا لکھا ہوا منظوم جواب آ گیا۔

در آید گر بود مرد حقیقت کہ باما ہم نفس ھم راز گردو۔

اگر  ابلہ  بودآں  مرد  ناداں  ازاں  راہے  کہ آمد باز گردو۔

ترجمہ!

اگر اُمید وار حقیقت شناس ہے تو اندر آ جائے اور ہمارا ہم دم و ہمراز بنے اور اگر ابلہ و ناداں ہے تو جس راہ سے آیا ہے، اسی سے واپس جائے۔

جواب پاتے ہی یہ لڑکا اندر، خواجہ نظام الدّین اولیا کے پاس چلا گیا اور امیر خسروؒ کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی۔

یہ مُرشد سے عشق ہی تھا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کو حضرت امیر خُسروؒ سے اتنی مُحبّت ہوگئی کہ! ایک مرتبہ فرمایا! ”اگر شریعت میں اِجازت ہوتی تو میں یہ وصیت کرتا کہ امیر خُسرو کو بھی میری ہی قبر میں دفن کیا جائے۔“

جبکہ یہ وصیت بھی فرمائی کہ خسروؒ کی قبر میرے پہلو میں ہونی چاہیے۔

حضرت خواجہؒ نے امیر خسروؒ سے اپنی بے پایاں اُنسیت کے باعث یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے وصال کے بعد خسروؒ میری تُربت کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جِسم بے تاب ہو کر قبر سے باہر آجائے گا۔

Loading