خوشگوار ازدواجی زندگی
رشتے محبتوں سے پروان چڑھتے ہیں۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ خوشگوار ازدواجی زندگی )شادی کے بعد نئے گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنا اور رشتے نبھانا ایک اہم کام ہے۔
اکثر لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا محل نما گھر ہو اور اس میں صرف انہی کی حکمرانی ہو۔ ساس بہو کو بڑے چاؤ سے بیاہ کر لاتی ہے مگر کچھ ہی عرصے کے بعد سارے لاڈ اور چونچلے ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بہو ابتدائی دنوں میں توساس کے سامنے ایک سعادت مند بیٹی کی طرح رہتی ہے مگر رفتہ رفتہ محلے شکوے اور اختلافات جنم لینے لگتے ہیں۔ شروع میں شوہر کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملائی جاتی ہے۔ ان دنوں محبت کا موسم اپنے عروج پر ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ گھر کا ماحول تبدیل ہونے لگتا ہے۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے…..؟اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا گھر امن و سکون کا مرکز ہو۔ ایسا گھر جہاں کے مکین آپس میں پیار و محبت رہیں۔
شادی کے بعد قائم ہونے والے رشتے انتہائی اہم ہیں۔ شادی دو افراد کے ملاپ کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کے ملاپ کا بھی نام ہے۔
رشتوں کو نبھانا مشکل ضرور ہے مگر نا قابل عمل نہیں ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دل میں صبر ، برداشت، تحمل اور درگزر کا مادہ ہو۔ اختلاف رائے کی گنجائش ہر جگہ ہوتی ہے۔ ان اختلافات کو جھگڑے کی شکل دے دی جائے تو نا صرف گھریلو ماحول خراب ہو گا بلکہ رشتوں میں بھی دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ بزرگوں کا سایہ گھر کے لیے رحمت ہوتا ہے ساس، سسر ، نانیاں، دادیاں ہی وہ ہستیاں ہیں جن کے تجربات کی روشنی میں نئی نسل کو ہدایت مل سکتی ہے، ان کی ہی دعاؤں کے طفیل گھر پھلتا پھولتا ہے۔
کہتے ہیں کہ اصل سے سود پیارا ہوتا ہے اور اولاد سے اتنی محبت نہیں ہوتی جتنی اولاد کی اولاد سے ہو جاتی ہے۔ عام طور پر والدین معاشی، ا دفتری اور گھریلو کاموں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ بچوں کی طرف زیادہ توجہ ہی نہیں دے پاتے۔ ایسے میں یہ بزرگ ہی ہوتے ہیں جو ایک سایہ دار شجر بن کر پودوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ یہ بزرگ ایک چلتا پھرتا تعلیمی ادارہ ہوتے ہیں۔ جب لڑکیاں بیاہ کر سسرال جائیں تو ان پر واجب ہے کہ ساس، سسر کا خیال رکھیں ، ان کا احترام کریں۔ جس طرح وہ ماں باپ کے حکم کو نہیں ٹالتیں اسی طرح انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یه بزرگ ان کے شوہر کے ماں باپ ہیں۔ خوش گوار ازدواجی زندگی: میاں بیوی کا رشتہ خاندان کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ جس قدر پائیدار ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ ان کی ذہنی ہم آہنگی، سمجھوتے اور محبت سے ہی ایک اچھا خاندان جنم لے سکتا ہے۔
تعلقات میں بگاڑ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی جائے۔
دوسرے کی رائے کو مقدم سمجھنا اور اس کا احترام کرنا امن اور صلح کا راستہ ہے۔ اپنی مرضی کو اہمیت دینا اور دوسرے کی مرضی کا خیال نہ رکھنا خود غرضی کی دلیل ہے۔ بہت سے مرد یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے زندگی گزاری ہے ان کے گھر آنے والی بھی اسی طرح زندگی گزارے۔ عام طور پر شادی کے بعد عورت ہی زیادہ ایثار کرتی ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ ساری خوشیوں کو فراموش کر دے اور طریقے یا سلیقے سے شوہر سے اپنی کوئی ایک بات بھی نہ منوا سکے۔ شوہر کو تحکمانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح بیوی کو بھی بحث مباحثے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر دونوں ایک دوسرے کے مزاج اور باہمی ذمہ داریوں کو سمجھ لیں اور ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ بر آہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی گھریلو زندگی مثالی نہ ہو۔ شادی شدہ زندگی میں لچک دار رویہ رکھنا بہت ضروری اور مفید ہے۔
جب دو افراد میں کوئی نیارشتہ بنتا ہے تو دونوں کی شخصیت کے منفی اور مثبت دونوں پہلو سامنےآتے ہیں۔ ان کی کمزوریاں، خوبیاں ایک دوسرے پر عیاں ہوتی ہیں۔ اس لیے دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے رہیں۔
بعض اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ جب دونوں میں اختلاف ہوتا ہے تو دونوں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ بات کرنے سے کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔ یہ کتھارسس کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس دوران دونوں میں سے ہر ایک کا لہجہ اور الفاظ
کا چناؤ مہذب ہونا چاہیے تاکہ سامنے والا شخص بات دھیان سے سن سکے اور سمجھ سکے۔ کون سا گھر ایسا ہو گا جہاں میاں بیوی میں نوک جھونک نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے جو لڑائی کے بعد ہو جائے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس لڑائی کا تذکرہ خاتون اپنے میکے میں سہیلیوں میں یا شوہر اپنے دوستوں سے بھی کریں۔ یہ خالص ذاتی مسئلہ ہے۔ اسے اگر گھر سے باہر لائیں تو ایک تو شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جائے گا ایسی صورت میں شوہر یہ سمجھنے لگا کہ اس کی اہلیہ اس کی کسی بات کو راز نہیں رکھ سکتیں۔ ایسے میں ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ جب شوہر بہت سی اہم باتوں
کو بھی چھپانے لگے۔ یقیناً بعض معاملات میں میاں بیوی کی دورائے ہو سکتی ہیں کیونکہ دنیا میں ہر شخص کے خیالات نظریات اور احساسات مختلف ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ
نہیں کہ محض اسی کو بنیاد بنا کر زندگی کو دشوار بنالیا جائے۔
قریبی تعلقات کو کامیابی سے ہمکنار رکھنے کے لیے دل کشادہ رکھنا ہو گا۔ شادی کے بعد کئی لڑکیاں گھر پر اپنی حکومت چاہتی ہیں۔ اگر ان کے شوہر اپنی والدہ والد یا بہن بھائیوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں تو وہ برداشت نہیں کرتیں۔ اس طرح معاملات الجھتے جاتے ہیں۔ شوہر کا دل جیتنے کے لیے ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا ہو گا۔ وہ کن لوگوں سے محبت کرتے ہیں ان لوگوں کی خاطر تواضع اور تعریف کرنے سے وہ یقیناً دل سے معترف ہوں گے اور ان کے دل میں بیوی کی عزت بڑھ جائے گی۔ گھر کے بجٹ سے کچھ بچت کر کے ساس مندوں یا دیور اور ان سے متعلقین کے لحاظ سے چھوٹے موٹے تحائف دینا چاہئیں۔ کبھی ان کی پسند کے کھانے بنا کر کبھی ان کے مسائل شیئر کر کے انہیں اپنائیت کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔ رشتے سنبھالنے سے سنبھلتے ہیں اور زندگی اچھی طرح گزارنے کے لیے محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2021