Daily Roshni News

دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ قسط نمبر 30

قسط نمبر 30

کالم : مسیح الدجال

تحریر: ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ: 29 اگست 2022

جھوٹے دجال ۔

پچھلی قسط میں ہم نے تیسری صدی ہجری کے بڑے فتنہ قرامطہ ، اس کے تباہ کاریوں اور کے عقائد کے بارے میں لکھا ۔ قرامطہ کی تعداد اگرچہ کم تھی لیکن ان کا وار کاری تھا اور ان کا زور عراق ، بصرہ ، یمن ، ایران اور افغانستان کے علاقوں پر تھا ۔ابھی یہ فتنہ عروج پر ہی تھا کہ 239 ہجری میں ایک اور جھوٹا کذاب صنعاء سے برآمد ھوا ۔

علی بن فضل یمنی

علی بن فضل نامی جھوٹا مدعی نبوت چوٹی کا شعبدہ باز تھا ۔ ایک ولی اللہ اور نیک انسان کے روپ میں ابھرا ، اپنے مریدوں کا دائرہ وسیع کیا ۔ یہ شخص صنعاء کے ایک دیہات میں رہتا تھا ۔ جب اسے لگا کہ لوگ اس کی اطاعت شعاری کرنے لگے ہیں تو اس کو بھی قرمطی کی طرح دعویٰء نبوت کا شوق چرایا ۔ یہ شخص صنعاء کے مضافات سے اتر کر صنعا میں آگیا اور دعوائے نبوت کردیا لیکن لوگوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی اور بہت دنوں تک اپنی خانہ ساز نبوت کی تبلیغ کرنے کے باوجود کوئی ایک شخص بھی اس کے دعوے پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوا تو اس نے کرامتوں کے ذریعے لوگوں کو گرویدہ کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اور شعبدوں کا سہارا لیا
یہ شخص خود تو تاریخی طور پر کوئی باقاعدہ کیمیا دان نہ تھا لیکن شاید کسی ماہر کیمیادان کی اس کو تائید اور مدد حاصل تھی۔
چنانچہ اس نے چند ایک کیمیائی سفوف اور چربی کو ملا کر سرکے میں بھگویا اور چھاؤں میں سکھا کر اس کی کچھ گولیاں تیار کر لیں پھر ایک رات ایک بلند مقام پر چڑھ گیا اور ان گولیوں کو دہکتے ہوئے کوئلے میں جلانے لگا جس سے ایک سرخ اور ارغوانی رنگ کا دھواں اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام فضا پر محیط ہو گیا۔ پھر اس دھویں میں کوئی خاص ترکیب کی جس سے اس دھویں کے اندر بہت سی چمکیلی ناری مخلوق نظر آنے لگی جو گھوڑے پر سوار ہو کر ایک دوسرے سے جنگ کر رہی تھی۔

جب لوگوں نے یہ کرامت (شعبدہ بازی ) اپنی آنکھوں سے دیکھی تو ورطہء حیرت میں ڈوب گئے۔ اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے سمجھا کہ اللہ کے نبی کا انکار کرنے کی وجہ سے ان کو عذاب کا اشارہ دیا جا رہا ہے۔ چنانچہ لوگ گروہ در گروہ اس پر ایمان لانے لگے۔حالانکہ جو لوگ توحید پرست اور محمد رسول الله صلى الله علیہ وسلم کی نبوت پر مکمل ایمان رکھتے تھے انہوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن لوگ نہ مانے اور اس شعبدہ باز کا یہ وار چل گیا ۔
حالانکہ علی بن فضل یمنی جھوٹی نبوت کا دعویدار تھا لیکن تاریخ کے بعض مصنفین کے مخطوطہ جات میں یہ بھی ملتا ہے کہ یہ ملعون ” علی بن فضل ” خدائی کا دعویدار بھی تھا کیونکہ جب وہ اپنے اندھے بہرے معتقدین میں سے کسی کے نام کوئی خط لکھتا تو اس کا عنوان یہ ہوتا کہ
” زمین کو حرکت دینے اور ٹھہرانے والے اور پہاڑوں کو ہلانے اور ٹھہرانے والے علی بن فضل کی جانب سے فلاں بن فلاں کے نام “
علی بن فضل یمنی نے تمام حرام چیزوں کو حلال قرار دے دیا تھا۔ اس کی شریعت میں شراب حلال تھی اور بیٹی سے نکاح جائز تھا۔ حالانکہ بہت سے ایمان والوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا آخر کار کچھ شرفاء کی غیرت جاگی اور ایک محفل میں اسے زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ اس طرح یہ دجال اپنے ہی حواری کے ہاتھوں اپنے بدترین انجام کو پہنچا۔

عبد العزیز باسندی

عبد العزیز باسندی نامی ایک اور جھوٹے نے باسند ، صفانیان ، (ایران کے مضافات ) میں 322 ھجری میں نبوت کا دعویٰ کیا۔

جس طرح اکثر جھوٹے مدعیان نبوت کم علم اور کمزور ایمان والے افراد کو شعبدے کے سہارے ہی ایمان کی دولت سے محروم کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح علی بن فضل یمنی اور اس جھوٹے کذاب عبدالعزیز باسندی نے بھی کیا ۔ وہ بہت بڑا شعبدہ باز تھا۔ لیکن جس شعبدے سے اس نے لوگوں کو اپنا معتقد بنایا وہ یہ تھا کہ وہ اپنا ہاتھ پانی کے حوض میں ڈالتا اور سرخ دینار سے مٹھی بھر کر باہر نکال لاتا۔ اس شعبدے کو دیکھ کر لوگ دیوانہ وار اس پر ایمان لانے لگے۔ علمائے حق اور داعیان کلمۃ اللہ نے بہت کوشش کی کہ اس شعبدے کے جال میں کوئی ایمان والا مسلمان پھنس نہ جائے لیکن اکثریت نے ان کی ایک نہ سنی ۔ اگرچہ کچھ لوگ ان کے کہنے پر جھوٹے نبی کے فتنے سے محفوظ رہے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں نے اپنا ایمان عبد العزیز باسندی کے حوالے کر دیا۔

جب عبد العزیز باسندی کے معتقدین کی تعداد میں بہت جلد اور خوب اضافہ ہو گیا تو اس نے ایک فوج بھی بنالی ۔ اور اہل ایمان پر ظلم و ستم کی انتہا کردی اور بہت سے ایمان والوں کو قتل بھی کردیا۔
جب عبد العزیز باسندی کے ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی تو وہاں کے حاکم وقت ابو علی بن محمد بن مظفر نے اس فتنے کا سر بزور شمشیر کچلنے کا ارادہ کیا۔چنانچہ ابو علی نے ایک فوج روانہ کی تاکہ اس فتنے کا خاتمہ ہو۔ جب اس فوج کی اطلاع عبد العزیز باسندی کو ملی تو وہ اپنے معتقدین کے ساتھ ایک بلند پہاڑ پر چڑھ کر ایک قلعہ میں بند ہو گیا۔ مسلمانوں نے بھی محاصرہ کیے رکھا۔ آخر ایک دن، جب سامان رسد ختم ہو گیا اور مسلمانوں نے بھی جرأت کا مظاہرہ کر کے پہاڑ کی بلندی پر قدم رکھ دیا تو ایک خطر ناک جنگ ہوئی جس میں باالآخر سپہ سالار کے ہاتھ سے یہ ملعون قتل ہوگیا۔ قتل کے بعد اس کا سر ابو علی کے پاس بھیج دیا گیا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ مرنے کے بعد وہ پھر واپس آئے گا۔ چنانچہ اس کے کچھ بچے ہوئے معتقدین اس کا انتظار کرتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ اسلام میں شامل ہونے لگے ۔
جاری ہے

Loading