دلیپ کمار بہت کچھ کرسکتے تھے جو کیا نہیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نامور اداکار نصیرالدین شاہ نے دلیپ کمار کی دیو قامت شخصیت کے اعتراف کے ساتھ ان پر کچھ اعتراضات بھی کئے ہیں۔اخبار انڈین ایکسپریس میں Requiem for Dilip Kumar and a small complaint’کے عنوان سے ان کا ایک آرٹیکل شائع ہوا ہے جو موضوع بحث بنا ہوا ہے.
نصیرالدین شاہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دلیپ صاحب نے بہت عمدہ نیچرل اداکاری کی اور اس زمانے میں جس طرح ہاتھ ہلا ہلا کر پرجوش، بلند آواز میں تھیٹریکل لاﺅڈ اداکاری کی جاتی تھی ،اسے بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ان کی ڈائیلاگ ڈیلیوری، مکالموں میں نہایت موزوں وقفہ،دلکش ادائیگی، بے مثال کردار نگاری وغیرہ سب لاجواب ہے۔ نصیرالدین شاہ کے خیال میں اگرچہ دلیپ صاحب کی بہترین فلمیں پچاس اور ساٹھ کے عشرے کی ہیں اور اپنی مشہور فلم گنگا جمنا کے بعد وہ اتنے متاثرکن نہیں رہے۔
نصیرالدین شاہ کو اعتراض یہ ہے کہ دلیپ کمار عظیم اداکار تھے، مگر وہ فلم انڈسٹری میں جتنا بڑا کنٹری بیوشن کر سکتے تھے، انہوں نے نہیں کیا۔ دلیپ کمار نے ہمیشہ سیف کھیلنے کو ترجیح دی اور پاپولر، روایتی ڈگر کے کردار نبھائے، جن سے ان کا عظمت کا ہالہ ہمیشہ قائم رہا۔ شاہ کے الفاظ میں” دلیپ کمار نے صرف ایک فلم پروڈیوس کی، کسی فلم کی ہدایت کاری نہیں کی، کبھی اپنے تجربے کو آگے منتقل کرنے کی کوشش نہیں کی ، کسی نئے اداکار کو گروم نہیں کیااور اپنے آخری دو عشروں میں ایسا متاثرکن کام نہیں چھوڑا جس سے مستقبل کے اداکار سیکھ سکیں، حتیٰ کہ ان کی بائیوگرافی میں بھی پرانے چھپے ہوئے انٹرویوز ہی اکٹھے کئے گئے۔“ نصیرالدین شاہ کو شکوہ ہے،” دلیپ کمار جیسے بڑے آدمی نے آخر اپنی بائیوگرافی میں ان عظیم ہدایت کاروں کے ساتھ کام کے حوالے سے کچھ شیئر کیوں نہیں کیا ؟ اس کتاب میں دلیپ کمار کے کام اور تکنیک کے حوالے سے بھی معلومات نہیں ملتی۔“ یاد رہے کہ دلیپ کمار نے بھارتی فلم انڈسٹری کے چند بڑے ہدایت کاروں جیسے محبوب، بمل رائے، کے آصف، بی آر چوپڑا وغیرہ کے ساتھ کام کیا۔ نصیرالدین شاہ کے خیال میں دلیپ کمار پنڈت جواہر لال نہرو کے مداح تھے اور انہیں اپنا رول ماڈل بنائے رکھا، اسی انداز کا رکھ رکھاﺅ، مجلسی آداب ، ویسی شائستہ شخصیت وغیرہ ۔ شاہ نے پنڈت نہرو پر بھی ایک طنزیہ جملہ لکھا کہ نہرو خود کو ہندومسلم دوستی کا ترجمان کہتے تھے، مگر جب فیصلہ کن لمحات آئے تو وہ (مسلمانوں کے لئے) کھڑے نہ رہ سکے ۔
نصیرالدین شاہ کا اعتراض ہے کہ دلیپ کمار مالی اعتبار سے اتنے مستحکم تھے کہ سات پشتیں مزے سے رہ سکیں، وہ اتنے بڑے اداکار تھے کہ کسی فلم میں ان کا ہونا اسے مشہور اور خاص کر دیتا، ان کی آنکھ کا اشارہ بھی کسی بڑے فلمی پراجیکٹ کے خیال کو حقیقت بنا سکتا تھا، مگر دلیپ کمار نے اپنی اس حیثیت کو عام روایتی ڈگر سے ہٹ کر اپنے عہد کی تلخی سچائیاں بے نقاب کرتی معیاری فلمیں تخلیق کرانے اور یوں انڈسٹری کو آگے لے جانے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ وہ صرف اپنی عظمت، اپنے بلندو بالا مقام اورسحرانگیز ہالہ کو قائم رکھنے کے لئے کوشاں رہے۔ اپنے اس آرٹیکل کے آخر میں البتہ نصیرالدین شاہ نے اعتراف کیا کہ میں ان کئی ملین پرستاروں میں سے ایک ہوں، جو دلیپ کمار کے سحرانگیز کام کی وجہ سے ہمیشہ ان کے ممنون رہیں گے۔
بشکریہ جناب عامر ہاشم خاکوانی