Daily Roshni News

دوستو کے اصرار پر یہ فلم دیکھی ۔۔۔۔۔ مگر یہ فلم تو نہیں تھی

دوستو کے اصرار پر یہ فلم دیکھی ۔۔۔۔۔ مگر یہ فلم تو نہیں تھی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دوستو کے اصرار پر یہ فلم دیکھی ۔۔۔۔۔ مگر یہ فلم تو نہیں تھی ۔۔۔۔۔ یہ ایک شاعری کا دبستان تھا ۔۔۔۔۔ ایک مختصر دورانیے کی سرگزشت تھی ۔۔۔۔۔ زندگی کے اطوار سدھارنے کا اک نسخہ تھا ۔۔۔۔۔ اور اپنی کوتاہیوں سے سیکھنے کی ایک کوشش ۔۔۔۔۔ زندگی کو جیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ گزارا نہیں جاتا ۔۔۔۔۔ پلٹنے کا موقع سب ہی کو ایک بار تو ضرور نصیب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ بس وہ لمحہ ضائع نہیں ہونا چاہیے ۔

کہانی ہے اراوتی کی، جو ماضی کے ایک حادثے کے باعث خود میں سمٹی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ تنہا سفر کا خوف ذہن میں دیمک کی طرح پھیل گیا ہے۔ پھر مجبوراً ایک سفر کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔ پریتم ایک عارضی ہمسفر جو خود گزیدہ تھا  مرہم بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ بات ہچکچاہٹ سے شروع ہوتی ہے اور ڈر کو کریدتے ہوئے شاعری میں سمٹ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اپنے دل کی بات من میں ہی کیوں رکھی جائے؟ کبھی تو کوئی سننے والا مل ہی جائے گا ۔

شاعر اپنی شاعری میں خود کی ترجمانی کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس کو سمجھنے کا فریضہ سننے پڑھنے والوں پر چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔ اب کوئی ایسا مل جائے جو ان الفاظ کی وجہ سمجھ سکے تو یہی شاعر کی معراج بن جاتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ میرے الفاظ بے معنی نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر کیا سب باتیں کہی جاسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور کیا سب باتیں سنی بھی جاسکتی ہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ایسا ممکن نہیں ۔۔۔۔۔ یہیں سے اختلاف رائے شروع ہوتا ہے ۔

ہم کو سب کچھ میسر ہونے کے باوجود باہر کی خوشیوں کی تلاش کیوں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ دراصل ہم رشتوں کو ویسے نہیں دیکھتے جیسے دوسرا ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے اس لیے ہم توقع کچھ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ملتا کچھ اور ہے ۔۔۔۔۔ ایک بار صرف ایک بار سامنے والے کی نظر سے خود کو دیکھ لیں تو سب گلے شکوے دور ہو جائیں ۔

اگر ہم کچھ درد لکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ چاہے شاعری ہو یا کوئی تحریر ۔۔۔۔۔۔ سامنے والا اکثر یہ سمجھتا ہے کہ تم صرف ہمدردی کیلئے یہ سب کررہے ہو ۔۔۔۔۔ تم صرف توجہ کے متلاشی ہو ۔۔۔۔۔ اگر ایک بار وہ اس سمت آکر دیکھ لیں تو شاید خود اپنی ہی نظروں سے ہی گر جائیں ۔۔۔۔۔۔ کبھی سوچا ہے وہ زندگی کتنی بےجان ہوچکی ہوتی ہے جو کسی کو اپنی جان لینے پر بھی مجبور کر دیتی ہے ۔

ہم لوگ کسی رشتے کو اس کے آخری گزرے ہوئے وقت کے حساب سے یاد رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر چاہے باقی سب یادیں خوشگوار گزری ہوں ۔۔۔۔۔۔ اگر آخری ملاقات میں تلخیاں بسی ہوں تو ہم اس رشتے کو مکمل طور پر مسترد کردیتے ہیں یہ سب باتیں زندگی جینے سے روک کر اسے صرف گزارنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ سب اس فلم میں بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔

کلائمکس چونکا دینے والا ہے ۔۔۔۔۔ سیامی کھیر تو خیر کمال ہی تھی مگر جس سین میں گلشن اپنے بیوی بچوں کے بستر کو چومتا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ روح تک توڑ کر رکھ دیتا ہے ۔۔۔۔۔ ہم بچھڑنے والوں کے لمس کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ پھر نہ ماضی کی کوئی خبر رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی مستقبل کی کوئی فکر ۔۔۔۔۔۔ رہا وقت موجود ، تو وہ تو ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہے ۔

ابھی بھی وقت ہے ۔۔۔۔۔ اپنوں کو وقت دیں ۔ اپنے ہونے کا احساس دلائیں اور اگر سیکھنا چاہیں کہ یہ سب اب کیسے کیا جائے تو دو گھنٹے فرصت کے نکال کر ایک نشست میں یہ فلم دیکھ لیں ۔۔۔۔۔ وقت بھی اچھا ہو جائے گا ۔۔۔۔۔ اور زندگی جینے کا ڈھنگ بھی مل جائے گا ۔۔۔۔۔ آپ کی رائے کا انتظار رہے گا ۔۔۔۔۔ شکریہ ۔

8AM Metro

ایوب اسماعیل / Film Walay فلم والے

Loading