Daily Roshni News

دیوار مہربان، میزبان فریج۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید چوہدری۔۔

دیوار مہربان، میزبان فریج

تحریر۔۔۔جاوید چوہدری

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ دیوار مہربان، میزبان فریج۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید چوہدری)وہ کون تھا، اس کا نام کیا تھا اور وہ کہاں کا رہنے والا تھا، دنیا نہیں جانتی لیکن اس کے ایک فیصلے نے کروڑوں لوگوں کی سوچ بدل دی اور سوچ بدلنے کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا، یہ دریا بھی بہہ رہا ہے! اس اجنبی نے کیا کیا ؟…. اس نے شہر کی دیوار پر کھونٹیاں لگائیں، ان پر اپنے فالتو کپڑے لٹکائے، دیوار پر جلی حروف میں دیوار مہربانی” لکھا، اس کے نیچے یہ دو فقرے لکھےاور غائب ہو گیا

مگر آپ کو ضرورت نہیں تو آپ یہاں انکا جائے اور اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ یہاں سے اتار لیجئے“ ان دو فقروں، ان آدھ درجن کھونٹیوں اور دیوار پر درج اس دیوار مہربانی“ نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ دیوار مہربانی” اب وائرس کی طرح پوری دنیا میں پھیل رہی ہے، آپ کو آج صرف دو ماہ میں یہ ”دیوار مہربانی“ دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آ رہی ہے ماہرین کا خیال ہے، یہ تصور ایک برس میں آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یوں یہ دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی روایت بن جائے گی۔ یہ تصور ہے کیا اور یہ کیوں پھیلا، ہم اس طرف جانے سے پہلے ایک جغرافیائی حقیقت جانتے ہیں۔ بلوچستان کا ایک حصہ افغانستان اوردوسرا ایران سے جڑا ہوا ہے، یہ دو سرحدیں صرف زمینی سرحدیں نہیں ہیں، یہ موسمیاتی بانڈریز بھی ہیں، یہاں سے سرد موسم شروع ہوتا ہے اور آپ جوں جوں بلوچستان سے دور ہوتے جاتے ہیں، سردی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ سردی ایران اور افغانستان سے سنٹرل ایشیا میں داخل ہوتی ہے، یہ وہاں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، ایک لہر روس سے ہوتی ہوئی سائبیریا پہنچتی ہے، وہاں سے قطبین میں داخل ہوتی ہے اور آخر میں برفوں میں دفن ہو جاتی ہے، دوسری لہر ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ میں داخل ہو جاتی ہے اور یہ 28 ملکوں سے ہوتی ہوئی سپین پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے،

سپین سے گرمی شروع ہو جاتی ہے، یہ گرمی مراکش میں داخل ہوتی ہے اور پورے افریقہ کو دوزخ بناتی ہوئی عرب ملکوں تک پہنچتی ہے اور وہاں سے لاطینی امریکا کی طرف نکل جاتی ہے۔

گرمی اور سردی کی یہ لہریں سورج کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر دوڑتی بھاگتی رہتی ہیں، یہ کیسے اٹھتی ہیں، یہ کیسے سفر کرتی ہیں اور ان کا ہمارے شمسی نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے، یہ ہمارا موضوع نہیں، ہمارا موضوع دیوار مہربانی ہے ، ہم اس طرف آتے ہیں۔ یہ دیوار مہربانی ایران کے سرد علاقے میں پیدا ہوئی، ایران کے شمال مشرقی اور مغربی صوبے سردیوں میں شدید سرد ہو جاتے ہیں، مشہد اسی ٹھنڈی بیلٹ ” میں واقع ہے۔

2015ء کے دسمبر میں مشہد کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا۔ زندگی جمنا شروع ہو گئی، سردی کے اس شدید موسم میں کسی شخص نے غریبوں کو کپکپاتے دیکھا تو اس کے ذہن میں اچھوتا آئیڈیا آیا، وہ ایک رات پینٹ کا ڈبہ ، برش، کھونٹیاں اور گھر بھر کے فالتو کپڑے لے کر شہر کی مرکزی شاہراہ سجاد بلیوارڈ چلا گیا، اس نے دیوار پینٹ کی، اس پر کھونٹیاں لگائیں، اپنے فالتو گرم کپڑے ان پر لٹکائے،

دیوار پر ”دیوار مہربانی“ لکھا، اس کے نیچے دو فقرے لکھے اور پینٹ اور برش لے کر غائب ہو گیا۔ صبح جب شہر جاگا تو اس آئیڈیا نے تمام شہریوں کو حیران کر دیا، لوگ گھر گئے، اپنے فالتو کپڑے نکالے اور آکر چپ چاپ کھونٹیوں اور لٹکا دیئے، ضرورت مند آئے،

اپنے باپ کے کپڑے اتارے، پہنے اور چلے گئے، یہ دیوار چند دنوں میں مخیر حضرات اور ضرورت مندوں کی عبادت گاہ بن گئی، مشہد کے لوگ دن میں کم از کم ایک بار اس دیوار پر ضرور آتے تھے۔ نوجوانوں نے دیوار کی تصویریں بنائیں اور سوشل میڈیا پر چڑھا دیں، یہ آئیڈیا سوشل میڈیا پر پاپولر ہو گیا۔ عوام نے شہر کی دوسری گلیوں اور سڑکوں پر بھی دیوار مہربانی بنادیں۔ یہ دیوار ایک ہفتے میں مشہد سے نکلی اور پورے ایران میں پھیل گئی۔ دسمبر کے آخر میں تہران میں ”دیوار مہربانی” بنی۔ تہران کے لوگ بھی دیوار پر کپڑے، جیکٹیں، کمبل اور جوتے لنکانے لگے ۔ تہران کے ضرورت مند بھی دیوار مہربانی کی مہربانی سے اپنی ضرورتیں پوری کرنے لگے، یہ آئیڈیا سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ تک پھیل گیا۔ مشرقی یورپ میں اس وقت شامی پناہ گزینوں کی یلغار جاری تھی، یورپ کے لوگوں کو بھی یہ آئیڈیا پسند آگیا۔ انہوں نے بھی ان تمام سڑکوں پر دیوار مہربانی بنانا شروع کر دیں جہاں سے شامی مہاجرین کے قافلے گزرتے تھے۔ یورپی میڈیانے ان دیواروں کی تصاویر نشر کرناشروع کر دیں۔ یوں یہ آئیڈ یا گلوبل ہو گیا۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں اہل تشیع رہتے ہیں۔ مشہد ان کی

نظروں میں مقدس شہر ہے، دسمبر میں چندا زائرین مشہد سے کراچی واپس آئے، انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشہد میں دیوار مہربانی دیکھی تھی۔ یہ لوگ اس آئیڈیا سے متاثر تھے چنانچہ انہوں نے کراچی کی چند دیواروں پر دیوار مہربانی لکھا اور وہاں فالتو کپڑے لٹکا دیئے، کراچی شہر میں سردی نہیں پڑتی چنانچہ اس آئیڈیا کو یہاں زیادہ پذیرائی نہ ملی لیکن یہ آئیڈیا جب لاہور ، سیالکوٹ، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور پہنچا، جب ان شہروں میں دیوار مہربانی بنیں اور جب لوگوں نے ان پر اپنے سویٹر، بیٹھیں، چادریں، کوٹ، جرابیں، لانگ شوز اور مظر انکانا شروع کئے تو اس آئیڈیا کو پر لگ گئے۔

یہ آئیڈ یا کتنا موثر ہے۔ آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجئے، پشاور میں جنوری میں پہلی بار دیوار مہربانی بنی، اس دیوار پر پہلے دو دن ہزار لوگوں نے گرم کپڑے لٹکائے اور اتنی ہی تعداد میں ضرور مندوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا۔ یہ آئیڈیا اب پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اخبارات میں روزانہ کسی نہ کسی دیوار مہربانی کی تصویر شائع ہوتی ہے اور عوام کھونٹیوں پر لٹکے لباس اور ان میں سے اپنے ماپ کے کپڑے تلاش کرتے ضرورت مندوں کی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور اس عظیم مشہدی انسان کے لئے دعا کرتے ہیں جس نے دنیا کو دیوار مہربانی کا آئیڈیا دیا۔

یہ ایران کا پہلا آئیڈیا نہیں جس نے تیزی سے دنیا کے دروازے دستک دی۔ اس سے قبل ایران سے فریج کا آئیڈیا بھی نکالا تھا۔ تہران کے کسی صاحب نے اپنی دکان کے سامنے ایک فریج رکھا اور اس فریج کے دروازے پر لکھ دیا ….

آپ اگر بھو کے ہیں تو آپ اس فریج سے اپنی مرضی کی چیز نکال کر کھالیں”

یہ آئیڈیا بھی کامیاب ہو گیا۔ لوگوں نے اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے فریج رکھنا شروع کر دیئے ، لوگ زائد کھانا ان فریجوں میں رکھ جاتے تھے، ضرورت مند آتے تھے، فریج کھولتے تھے اور اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے لیتے تھے ، تہران کے بعد یہ فریج ایران کے باقی شہروں میں بھی رکھے جانے لگے۔ یہ آئیڈیا بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں پھیل گیا۔ آپ کو آج یہ فریج بھی دنیا کے مختلف ملکوں میں نظر آتے ہیں، یہ دونوں آئیڈیاز شاندار ہیں۔ ہم جس دنیا میں رو رہے ہیں، اس میں 85 کروڑ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں، یہ لوگ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ بھوکے ایشیا میں رہتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ایشیا کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، آپ اگر صرف بچوں کے اعداد و شمار دیکھ لیں تو آپ پریشان ہو جائیں گے، دنیا میں۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2016

Loading