ذہنی سکون حاصل کرنے کا ایک مجرب نسخہ
تحریر۔۔۔جاوید چوہدری
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو ز انٹرنیشنل۔۔۔ ذہنی سکون حاصل کرنے کا ایک مجرب نسخہ۔۔۔ تحریر۔۔۔جاوید چوہدری)حاجی صاحب لان میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ وہ گلاب کی کیاریوں سے اپنا سفر شروع کرتے، نپے تلے قدموں سے چلتے ہوئے چنبیلی کی قطار تک پہنچتے، رکتے، منھ کھول کر لمبے لمبے سانس لیتے اور کمر پر ہاتھ رکھ کر واپس گلاب کی طرف چل پڑتے۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں یہ ان کا آٹھواں چکر تھا۔ ان کا مشہور زمانہ ، ڈنڈا امرود کے تنے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ میں حیرت سے کبھی ڈنڈے کی طرف دیکھتا اور کبھی لقا کبوتروں کی طرح سینہ پھلا کر واک کرتے حاجی صاحب پر نظر ڈالتا اور بے چین ہو کر ”لان چیئر “ پر پہلو بدلنے لگتا۔
میں حاجی صاحب کو پچھلے دس برس سے جانتا ہوں۔ حاجی صاحب دائم مریض ہیں۔ ان کا جگر سکڑ کر پندرہ فی صد رہ گیا تھا۔ وہ پچھلے کئی برسوں سے ہر ہفتے پیٹ سے چار بوتل پانی نکلواتے تھے۔ ان کے گردے تقریباً ناکارہ ہو چکے تھے۔ وہ ایک وقت میں آدھے سلائس سے زیادہ غذا نہیں کھا سکتے تھے۔ ان کے پھیپھڑوں میں اکثر پانی بھر جاتا تھا جس سے انہیں سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ نقاہت اس قدر تھی کہ ملازم انہیں اٹھا کر ٹوائلٹ لے جاتے تھے۔ معالجوں کی کوشش سے کبھی سال مجھے مہینے بعد ان کی طبیعت ذراسی دیر کے لئے سنبھل جاتی تو وہ چھڑی ( ڈنڈے) کی مدد سے اٹھ کر بیٹھ جاتے۔ تین برس پہلے ایک بار جب وہ بالکل تن درست ہو گئے تو وہ چھڑی کا سہارا لے کر بیڈ سے کرسی
تک چلے جاتے تھے۔
یہ حاجی صاحب میرے ایک قریبی دوست کے والد ہیں۔ خاندانی رئیں ہیں۔ چار ماہ قبل جب انہیں سلام کرنے گیا تو وہ لیٹ کر ریڈیو کی ناب گھمانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن رعشے کے باعث ناب ان کی گرفت میں نہیں آرہی تھی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ناب گھمائی اور ان کی مرضی کا اسٹیشن لگا کر ریڈیو ان کے سرہانے رکھ دیا۔ ممنونیت سے حاجی صاحب کی آنکھوں میں آنسو بے بسی دیکھ کر یہ میں آنسو آگئے جب کہ ان کی بے بسی دیکھ کر میرا حلق نمکین ہو گیا۔
چار ماہ بعد ، جی ہاں صرف چار ماہ بعد میں ان کے گھر میں داخل ہوا تو حاجی صاحب کو سہارے کے بغیر لان میں چہل قدمی کرتے دیکھا، حیرت سے میرا منہ کھل گیا۔ میں لان چیئر پر بیٹھ گیا۔ حاجی صاحب نے دور سے ہاتھ ہلا کر مجھے خوش آمدید کہا اور خود اسی طرح واک کرتے رہے۔ دسواں پھیرا مکمل ہوتے ہی وہ مڑے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کرسیوں کے نزدیک آگئے۔ میں ان کے احترام میں کھڑا ہو گیا۔ حاجی صاحب نے بازو آگے بڑھا کر مجھ سے ہاتھ ملایا، میری خیریت پوچھی اور پھر مسکرا کر میرے سامنے بیٹھ گئے۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ حاجی صاحب کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ گردن میں صحت مند لوگوں جیسا تناؤ تھا اور آواز میں راجپوتوں کی روایتی گھن گرج تھی۔ ملازم نے ان کے کاندھوں پر تولیہ ڈال دیا۔
حاجی صاحب نے رگڑ کر منھ صاف کیا اور ہنس کر بولے ” میں تمہاری پریشانی سمجھ رہا ہوں۔ تمہاری جگہ کوئی بھی ہوتا تو اس کا یہی رد عمل ہوتا“۔ انہوں نے تولیہ واپس کیا اور اشارے سے چھڑی لانے کا حکم دیا۔ ملازم امرود کے پیٹر کی طرف چل پڑا۔
ولیکن یہ معجزہ ہوا کیسے، کوئی دواء کوئی دعاء کوئی ویقی، کوئی تھراپی، کس نے یہ کمال دکھایا؟“ مجھے اپنے سوال کے لئے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ حاجی صاحب مسکرائے تو ڈوبتے سورج کی کرنیں ان کے دودھ جیسے اجلے دانتوں پر اتر آئیں۔ پھر ملازم ان کی چھڑی لے آیا۔ انہوں نے چھڑی کے دستے پر دونوں ہاتھ جمائے اور پھر ہاتھوں کے کوہان پر ٹھوڑی جما کر بولے: “میرا ہاتھ ایسا نسخہ آگیا ہے کہ اگر دنیا کو معلوم ہو جائے تو سارے ڈاکٹر بے روز گار ہو جائیں، سارے ہسپتال بند ہو جائیں اور سارے میڈیکل اسٹوروں پر تالے پڑ جائیں۔“
میں مزید حیران ہو گیا۔ حاجی صاحب نے اپنا بیان جاری رکھا، یار کا کاجی ! میرے ملازم کی ماں مرگئی۔ یہ چھٹی پر گاؤں چلا گیا تو میرے بچوں نے عارضی طور پر مجھے سات سال کا ایک بچہ دے دیا۔ یہ بچہ تازہ تازہ ہمارے گھر ملازم ہوا تھا۔ بچہ تھا لہذا اسے مجھے سنبھالتے ہوئے بڑی دقت ہو رہی تھی۔
ایک روز میں نے سوچا، پتا نہیں کون سی مجبوری ہے جس نے اس معصوم کو مجھ جیسی لاش سنبھالنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے اس سے وہ مجبوری پو چھی تو پتا چلا کہ اس کے ماں باپ اور بہن بھائی سیلاب میں یہ گئے تھے۔ ڈھور ڈنگروں اور زمین جائداد پر عزیز رشتے داروں نے قبضہ کر لیا اور خود وہ تین وقت کے کھانے اور دو کپڑوں کے عوض ہمارے گھر ملازم ہو گیا۔
بچے کی کہانی سن کر میر اول پیچ گیا۔ میں نے بچے سے پوچھا: ”بیٹا تم پڑھو گے ؟ بچے نے ہاں میں گردن ہلادی۔ میں نے اپنے منیجر کو بلوایا اور بچے کو شہر کے سب سے اچھے اسکول میں داخل کرانے کی ہدایت کردی۔ تم یقین کرو اس روز میں نے تین سال بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور میرے ڈاکٹر حیران رہ گئے۔ اگلے روز میں نے اس بچے کو ہوسٹل میں داخل
کرادیا۔ اس شام ملازم نے مجھے ٹوائلٹ لے جانے کے لئے اٹھایا تو میں سہارے کے بغیر پلنگ سے اٹھ گیا۔ میں ٹوائلٹ سے واپس آیا تو میں نے ملازم بلوائے اور انہیں کل تک ایسے پانچ بچے لانے کا حکم دے دیا جن کا اس دنیا میں کوئی نہ ہو۔ اگلے روز پانچ بچے آگئے۔ میں نے انہیں بھی اسی اسکول میں داخل کردیا۔ حاجی صاحب خاموش ہو گئے۔
پوچھا۔پھر کیا ہوا حاجی صاحب“۔ میں نے پریشان ہو کر پھر یہ سب کچھ ہوا جو تمہارے سامنے ہے۔ میں اپنی ٹانگوں پر چل رہا ہوں، کھاپی رہا ہوں، قہقہے لگا رہا ہوں۔ حاجی صاحب نے چھڑی گھاس پر چھینکی، کرسی سر کائی اور کمر پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں بھی کھڑا ہو گیا۔ وہ مسکرائے اور کھنکتی آواز میں بولے: ” تم بیٹھ کر چائے یا ….. میں نے ابھی مزید دس پھیرے لگانے ہیں“۔
میں بیٹھ گیا۔ حاجی صاحب سینہ پھلا کر گلاب کی کیاریوں کی طرف چل پڑے۔
“حاجی صاحب احتیاط سے سے چلیں کہیں گر نہ جائیں ؟“ میں نے ہانک لگائی۔ حاجی صاحب نے مڑے بغیر قہقہ لگایا اور اسی طرح لقا کبوتروں کی طرح چلتے چلتے بولے:
” میں اب نہیں کروں گا۔ اب میں اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک یہ بچے اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔“
حاجی صاحب گلاب کی کیاریوں کے قریب رک گئے، میری طرف دیکھا اور ذرا اونچی آواز میں بولے: قدرت تیموں کو چھاؤں دینے والے درختوں کے سائے لمبے کر دیا کرتی ہے“۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر 2021