روحانیت ، صحت اور میڈیکل سائنس
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ روحانیت ، صحت اور میڈیکل سائنس)آتا ہے، اس لیے اسے ConventionalTherapiesکےساتھ Alternative Therapy کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ یعنی روحانی علاج کو عام طریقہ علاج کے ساتھ استعمال کیا جائے تو شفایابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر کو منگ کا کہنا ہے کہ اپنا علاج آپ کرنے کے لیے اپنی روحانی قوت یا مذہب کا سہارا حیرت انگیز نتائج مہیا کر سکتا ہے۔ عبادت ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ خدا سے تعلق انسان کو پر سکون رکھتا ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔
لائف سائنسز انسٹی ٹیوٹ آف مائنڈ اینڈ باڈی ہیلتھ کنساس کے ریسرچ ڈائریکٹر اسٹیون فاریون کہتے ہیں “مراقبہ آپ کو اسٹریس سے جنم لینے والے مسائل مثلا ما نگرین، معدہ کا السر اور انگزائٹی وغیرہ کو قابو کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔“ہربرٹہاورڈ میڈیکل سکول کے ماہر امراض قلب ٹ سینسن Herbert Benson نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ عبادت اور دعا سے امراض قلب اور حملہ قلب روکا جاسکتا ہے، بلند فشار خون میں ڈرامائی کی ہو سکتی ہے اور درد اور سرطان کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر بنسن خود بھی قلب کے مریضوں کو عبادت اور دعا کے علاوہ سکون اور ستانے کے طریقے دس سال تک بتاتے رہے ہیں۔ آپ ذکر ، درد اور وظائف کی نفسیاتی اور شفائی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یہ ہر مذہب کے لوگوں کیلئے ان کے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق قابل عمل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر میری لین میٹنر نے جو کہ ایک سائیکا ٹرسٹ اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں نے بہت سے نفسیاتی مریضوں کا مطالعہ کیا اور یہ تلاش کیا کہ کتنے لوگوں نے مذہبی یا روحانی عبادت یا دعا کے ذریعے شفا پائی یا انہوں نے اس عمل کے بعد زندگی کو کتنا مطمئن پایا ؟…. اکثر مریض دعا کے اثرات سے مستفید ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ دعا ہمارے گوشت پوست کے جسم پر کس طرح اثر ڈالتی ہے۔ انہوں نے جسم میں خون کے دبائو کا مطالعہ کیا۔ پٹھوں کی Relaxation،اسٹر لیں میں کمی، ہارمونز کا اعتدال میں رہنا اور کارڈیو ویسکیولر سسٹم کے فنکشن کا تجزیہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ دعا کے اثرات جسم کے ہر حصےپر پڑتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اکثر لوگ مہلک بیماریوں سے نہیں مرتے کہ جس قدر کہ یقین کے ٹوٹنے یا بکھرنے سے مرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف میامی کے سائیکاٹری اور سائیکلوجی کے پروفیسر ڈاکٹر گیل ائر نسن Dr. Gail Ironson نے اس بات پرتحقیق کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ “روحانیت یا مذ ہب سے قربت بہت کی بیماریوں کو کنٹرول کرنے میںمدد دیتی ہے۔“ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ سیلون جو کردار علاج Behavioural Medicine تحقیق کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے “سائنس ابھی سپر4نیچرل چیزوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوئی ہے۔“ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور بیچ بھی ہے کہ ہمارا دماغ اور جسم کسی ماورائی قوت یا روح سے وابستہ ہے۔ اس کی سائنسی شہاد میں بھی موجود ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم اس قوت کا استعمال نہیں کر سکتے۔ سائنس کا ایک بڑا حلقہ مذہبکے صحت پر مثبت اثرات کو تسلیم کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ریڈیا لوجی، سائیکلوجی اور مذہبی تعلیم کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو نیوبرگ Andrew Newberg کا کہنا ہے دماغ ، روح کے ساتھ باہم مل کر کام کرتا ہے اور ذہن پر روحانی مخیالات کا تسلط ہماری زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ روحانیت کا تعلق ہمارے دماغ سے انتہائی گہرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی تصورات اور تجربات دماغ کے ایک خاص حصے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر نیوبرگ نے ایسے دیگر موضوعات پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں جن میں How God Changes Your Brain میں اس حوالہ سے اہم معلومات دی گئی ہیں۔ڈاکٹر ڈیوڈ الدرج David Eldridge بیان کرتے ہیں ۔ وہ سائنس جس میں صرف ادویات کے ذریعے علاج معالجہ کیا جاتا ہے اور اس میں صحت پر اثر انداز ہونے والے روحانی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ صحت کو جدید سائنس کے ماہرین جسمانی عوارض ، جسمانی افعال میں پیدا ہونے والے مسائل اور بیکٹیریا کے درجے پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً فلاں بیماری یا بخار و غیرہ فلاں بیکٹیریا کی بدولت ہوا ہے یا جسمانی اعضاء یا جسمانی افعال، دل کی دھڑکن ، نظام تنفس، نظام انہضام میں فلاں بے قاعدگی کی وجہ سے یہ بیماری ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ ماہرین انسانی صحت کا رشتہ نفسیات سے جوڑتے وابستہ ہے۔ اس کی سائنسی شہاد میں بھی موجود ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم اس قوت کا استعمال نہیں کر سکتے۔ سائنس کا ایک بڑا حلقہ مذہبکے صحت پر مثبت اثرات کو تسلیم کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ریڈیا لوجی، سائیکلوجی اور مذہبی تعلیم کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو نیوبرگ Andrew Newberg کا کہنا ہے دماغ ، روح کے ساتھ باہم مل کر کام کرتا ہے اور ذہن پر روحانی مخیالات کا تسلط ہماری زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ روحانیت کا تعلق ہمارے دماغ سے انتہائی گہرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی تصورات اور تجربات دماغ کے ایک خاص حصے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر نیوبرگ نے ایسے دیگر موضوعات پر بھی کتابیں تحریر کی ہیں جن میں How GodChanges Your Brain میں اس حوالہ سے اہم معلومات دی گئی ہیں۔ڈاکٹر ڈیوڈ الدرج David Eldridge بیان کرتے ہیں ۔ وہ سائنس جس میں صرف ادویات کے ذریعے علاج معالجہ کیا جاتا ہے اور اس میں صحت پر اثر انداز ہونے والے روحانی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ صحت کو جدید سائنس کے ماہرین جسمانی عوارض ، جسمانی افعال میں پیدا ہونے والے مسائل اور بیکٹیریا کے درجے پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً فلاں بیماری یا بخار و غیرہ فلاں بیکٹیریا کی بدولت ہوا ہے یا جسمانی اعضاء یا جسمانی افعال، دل کی دھڑکن ، نظام تنفس، نظام انہضام میں فلاں بے قاعدگی کی وجہ سے یہ بیماری ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ ماہرین انسانی صحت کا رشتہ نفسیات سے جوڑتے کیمیاوی مشین ہے یعنی اس میں کیمیکل ری ایکشنز ہوتے رہتے ہیں، کچھ کیمیاوی عمل اس کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں مثلاً انسان کھانا کھاتا ہے، وہ کھانا جسمانی مشین ہضم کرتی ہے، جس سے اُسے توانائی حاصل ہوتی ہے اور کچھ کیمیاوی عمل اس کے لیے
نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں مثلاً انسان اگر آلودہ پانی پی لے تو گیسٹرو کے مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر انسان ان کیمیاوی عمل سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے۔ اس کے خیالات، احساسات، کیفیات ، ذاتی تعلقات، اس کا عقیدہ، اس کا یقین …. اور بہت کچھ بھی اس کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر لیری ڈوسی نو کتابوں کی مصنفہ ہیں، ان کی مشہور کتاب کا نام Healing Beyond the Body ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ دعا کے ذریعے صحت حاصل کرنا ایک ایسا یقینی امر ہے جس طرح ہم ہوا، خوشبو اور خوشی و غم پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔ 1988ء میں ڈاکٹر رونالڈ ف بائرڈ جو ماہر امراض قلب ہیں، نے سان فرانسسکو کے جنرل اسپتال میں 400 مریضوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ روزانہ اجتماعی دعا کریں۔ 1999ء میں ڈاکٹر ایلز بتھ ٹریک جو کیلی فورنیا یونیورسٹی کی ایک نفسیات دان ہیں، نے اپنے اسپتال میں ایسے بہت سے رضاکار شامل کیے جو کہ روزانہ ایک گھنٹے تک مریضوں کے ساتھ دعا کرتے تھے۔ وہ مریض جو کہ دعا میں شریک نہیں ہوتے تھے ان میں صحت یابی کی شرح کم رہی۔ ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے 4000 بوڑھوں پر تجربات کر کے معلوم کیا کہ روحانی مشقوں
کیمیاوی مشین ہے یعنی اس میں کیمیکل ری ایکشنز ہوتے رہتے ہیں، کچھ کیمیاوی عمل اس کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں مثلاً انسان کھانا کھاتا ہے، وہ کھانا جسمانی مشین ہضم کرتی ہے، جس سے اسے توانائی حاصل ہوتی ہے اور کچھ کیمیاوی عمل اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں مثلاً انسان اگر آلودہ پانی پی لے تو گیسٹرو کے مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر انسان ان کیمیاوی عمل سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے۔ اُس کے خیالات، احساسات، کیفیات ، ذاتی تعلقات، اس کا عقیدہ، اس کا یقین …. اور بہت کچھ بھی اس کی
صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر لیری ڈوسی نو کتابوں کی مصنفہ ہیں، ان کی مشہور کتاب کا نام Healing Beyond the Body ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ دعا کے ذریعے صحت حاصل کرنا ایک ایسا یقینی امر ہے جس طرح ہم ہوا، خوشبو اور خوشی و غم پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ یہ سب چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔ 1988ء میں ڈاکٹر رونالڈ ف ہائرڈ جو ماہر امراض قلب ہیں، نے سان فرانسسکو کے جنرل اسپتال میں 400 مریضوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ روزانہ اجتماعی دعا کریں۔ 1999ء میں ڈاکٹر ایلز بتھ ٹریک جو کیلی فورنیا یونیورسٹی کی ایک نفسیات دان ہیں، نے اپنے اسپتال میں ایسے بہت سے رضاکار شامل کیے جو کہ روزانہ ایک گھنٹے تک مریضوں کے ساتھ دعا کرتے تھے۔ وہ مریض جو کہ دعا میں شریک نہیں ہوتے تھے ان میں صحت یابی کی شرح کم رہی۔ ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے 4000 بوڑھوں پر تجربات کر کے معلوم کیا کہ روحانی مشقوں سے ڈپریشن اور اسٹریس سے بچا جا سکتا ہے۔ 1995ء میں ڈرٹ ماؤتھ میڈیکل اسکول کی
رپورٹ کے مطابق دل کے جن مریضوں نے آپریشن کے بعد تین مہینے تک روحانی مشقیں کیں ایسے مریضوں کی بہ نسبت جلد صحت یاب ہو گئے جنہوں نے عبادت نہیں کی۔
1989ء میں ڈیوک یونیورسٹی جارجیا کے محققین نے معلوم کیا کہ باقاعدگی سے روحانی مشقیں کرنے والے افراد ہائی بلڈ پریشر سے بہت حد تک محفوظ ہو جاتے ہیں۔
متحدہ ریاست ہائے امریکہ میں 1987ء سے 1995ء تک 21,000 لوگوں کے مطالعہ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ باقائدگی سے عبادات اور روحانی مشقوں پر خلوص دل سے عمل کرتے ہیں ان کی عمر میں دوسرے لوگوں کی بہ نسبت سات سال کا
اضافہ ہو جاتا ہے۔
ستمبر 2001ء میں جنرل اور -Re productive میڈیسن نے کولمبیا یونیورسٹی سے ایک ریسرچ پیپر شائع کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ 219 خواتین کو بانجھ پن کے ضمن میں دعا کے ذریعے علاج کا طریقہ کار بتایا گیا تھا ان میں سے 200 خواتین نے شفا پائی، بہت سے غیر مذہبی اور Non-belivers قسم کے لوگ اب بھی اس کو محض اتفاق ہی قرار دیتے ہیں۔
کئی ڈاکٹر ز اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روحانی طرز فکر اور روحانی تعلق کو نظر انداز کر دینا ایسا ہی ہے جیسے ہم سائنس کو اپنی زندگیوں سے نظر انداز کر دیں۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017