روحانیت ، صحت اور میڈیکل سائنس
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ روحانیت ، صحت اور میڈیکل سائنس)ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند زندگی گزارے۔ ماہرین طب بتاتے ہیں کہ متوازن غذا، صفائی ستھرائی اور قوانین صحت کی پابندی کا لحاظ رکھ کر اور صحت بخش ورزش کو اپنی زندگی کا معمول بنا کر ہی انسان صحت مند و تندرست رہ سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی جیسے ماحول میں اور ایک ہی جیسی طرز زندگی گزارنےوالے دو مختلف افراد میں بھی کوئی صحتمند رہتا ہے اور کسی کی صحت بگڑ جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم بیمار کیوں پڑتے ہیں ….؟میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ انسانی جسم میںبیرونی خطرے سے دفاع کا ایک خاص مدافعتی نظامکام کر رہا ہے۔ اسے Immune -System کہتے ہیں۔ اسے ہمارا .مرکزی نروس سسٹم کنٹرول کرتا ہے۔ یہ امیونسٹم ہمیں مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتا ۔ انسانی جسم : میں White Blood Cell جسم بیماریوں سے بچانے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
انسانی جسم میں امراض کے پینے کا دارو مدار جسممیں موجود قوت مدافعت Immune System کیکار کردگی پر ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ نظام کمزورپڑ جائے تو جسم بیمار پڑجاتا ہے۔ماہرین بتاتے ہے کہ جب آدمی اسٹریسمیں ہوتا ہے تو اس کے امیون سسٹم پر برا اثر پڑتا ہے اور بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکاناتبڑھ جاتے ہیں۔ اگر آدمی ذہنی طور پر مطمئن ہو تو اس کے امیون سسٹم میں ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہوتی ہے۔ اسنظام کی کارکردگی اورجسم میں موجود غدود Glands کی صحت بر اور است متناسب ہوتی ہے۔ لہذا غدود جس قدر صحت مند ہوں گے قوت مدافعت بھی اتنیہی مستحکم ہو گی۔اسی طرح میٹا بولزم انسانی جسم میں ہونے والا وہ کیمیائی تعامل ہے جس کی وجہ سے خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے۔ دعا کے باعث اس ٹوٹ پھوٹ میں کمی کے نتیجے میں خلیات کی عمر بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنی بھر پور خدمات جسم کو پہنچا کر شفایابی کاباعث بنتے ہیں۔ہمارے جسم میں دو مزید اہم نظام کامکر رہے ہیں۔-1- سیمپی تھنک نظام Sympathetic System دل کی دھڑکن کی تیزی ، خون کی رفتار کی تیزی اور آنکھوں کی پتلیوں کے پھیلنے کو کنٹرول کرتا ہے۔-2 پیراسیمی تھنک سسٹم Parasympathetic System کے تحت دل کی دھڑکن کا آہستہ ہونا، خون کی رفتار کم ہونا ، چلیوں کا سکڑنا اور جسم کے مختلف مادوں اور غدود کی حرکات وقوع پذیرہوتی ہیں۔پر سیم پیتھنک سلم انسانی ارادے اور اختیارسے آزاد ہوتا ہے مثال کے طور پر ہمارا سانس لینے کا عمل فطری ہے۔ اگر ہم ارادے واختیار پر سانس کو کچھ دیر روک بھی لیتے ہیں تو تھوڑا وقعہ گزرنے پر دم گھٹنے لگتا ہے اور ہم سانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس سے ملتا جلتا معاملہ دل کی دھڑکن کے ساتھ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق تمام جسمانی، نفسیاتی اور دماغی امراض جن میں عارضہ قلب ، فالج ، ڈپریشن، قوتِ مدافعت میں کمی وغیرہ اسی نظام کے بگاڑ کیمرہون منت ہے۔ہم عام طور پر جسمانی بیماریوں سے واقف ہیں مثلا نزلہ، بخار، ذیا بیلس، انجائنا اور مانگرین وغیرہ۔ ان کے علاوہ بھی بعض بیماریاں ہیں جو ذہن پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ ان کو نفسیاتی یا ذہنی بیماریاں کہا جاتا ہے۔ بعض بیماریاں اعلیٰ اخلاقی قدروں یعنی اخلاقیات پر حملہ کرتی ہیں۔ کچھ بیماریاں انفرادی طور پر جسم یا ذہن پر اثر انداز ہوتی ہیں تو کچھ بہاریاں اجتماعی مزاج پر بھی حملہ آور ہو جاتی ہیں۔
ذہنی انتشار اعصابی نظام کو ضرورت سے زیادہ متحرک رکھتا ہے جس سے ذہنی اور جسمانی توانائی بڑی مقدار میں ضائع ہوتی ہے، لہذا ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جس سے ذہن اور جسم کو سکون میسر آئے۔ ذہنی و جسمانی مسائل کا آغاز بیشتر اوقات تشویش اور اضطراب سے ہوتا ہے۔
ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیز میں علیحدہ علیحدہ کی گئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر آدمی ذہنی تناؤ اور اعصابی کشیدگی میں زیادہ عرصہ مبتلا رہے تو اس کے منفس کی شرح بڑھ جاتی ہے، گیلوانی حسیاتی مزاحمت Galvanic Sensory Resistanceمیں اضافہ ہو جاتا ہے۔ خون میں لیکٹیٹ کی سطح بڑھتی ہے۔ اس سے دل اور دماغ کے عارضوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگر انسان ذہنی طور پر سکون اور آ یا اور آرام سے ہمکنار ہو تو نروس سسٹم میں بہتری آتی ہے۔
یہاں سائنسی شواہد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جسمانی صحت میں ہماری سوچ بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بیماری اور صحت کا تعلق ذہن سے ہے ماہرین نفسیات ذہنی مسائل کے حل کے لیے بہتر اور سادہ انداز فکر پر بہت زور دیتے ہیں۔ یعنی آپ تذبذب اور دو ذہنی کی کیفیت سے بچنے کی کوشش کریں کیونکہ اس سے آپ کی ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ ذہنی صحت متاثر ہونے سے جسمانی صحت پر پر بھی برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
آدمی کی سوچ اور فکر میں سادگی ہونی چاہیے۔ یعنی ہماری صحت کا انحصار زیادہ سے زیادہ پر سکون رہنے اور مثبت طرز فکر اور طرز زندگی اپنانے میں مضمر ہے۔
ان امراض سے نجات پانے کے لیے ایسا کون ساطریقہ علاج اختیار کیا جائے۔ عصر حاضر کے روحانی سکالر خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر فرماتے ہیں:
دنیا میں کوئی بھی طریقہ علاج ہو ایلو پیتھی ، یونانی ہو میو ڈیھی یا ایکو پنکچر وغیرہ ہر طریقہ علاج کے پیچھے ایک تھیوری ہوتی ہے۔ اس تھیوری کے پس منظر میں لوگوں کا تجربہ ہو تا ہے۔
سائیکاٹری اور سائیکالوجی صحت کی بحالی کے لیے جو طریقے بتاتی ہے ان کا زیادہ تعلق انسانی نفسیات اور اس کے مثبت و منفی رویوں سے ہے، اس میں بتایا جاتا ہے کہ آدمی کو حسد، انتقام، قصه، منافقت، شکوک و شبہات اور اخلاقی برائیوں سے بچنا چاہیے۔ ان اخلاقی خرابیوں سے آدمی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے، اس کا اثر اس کی نفسیات پر منفی پڑتا ہے، وہ روحانی طور پر بے چین ہو جاتا ہے۔ آدمی اگر اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا تو وہ ذہنی مسائل سے دو چار ہو سکتا ہے۔
قلیمی اور ذہنی طور پر پر سکون رہنے کا راز یہ ہے کہ آدمی کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر چلتا ہو۔ مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا احترام کرنے والا ہو۔
ایک اور علاج ہے جس کو آپ روحانی علاج کہتے ہیں۔
تصوف اور روحانیت کی رو سے بیماری پہلے انسان کے باطن میں پیدا ہوتی ہے اور پھر جسم پر ظاہر ہوتی ہے، لہذا اس کے باطن کا علاج کیا جائے تو جسم بھی صحت یاب ہو جائے گا۔ روحانی تعلیمات بتاتی ہیں کہ انسان در حقیقت جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ جسم کی ایناٹومی اور اس کی کارکردگی کے بارے میں سائنسدانوں اور طبی ماہرین نے کافی ریسرچ کی ہے۔ جب کہ انسانی شخصیت کے دوسرے رخ یعنی روح پر ابھی تک پوری طرح توجہ نہیں دی گئی۔
معروف صوفی بزرگ عظیم بر خیا قلندر بابا اولیانه کتاب لوح و قلم میں تحریر کرتے ہیں:
طبی نقطہ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لیے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سوتی کپڑے کا، اونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محل استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی۔ لیکن در حقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین لمبی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لباس کی تعریف کی۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2017