Daily Roshni News

روحانیت کا سفر۔۔۔ تحریر۔۔۔انور یوسف

روحانیت کا سفر

تحریر۔۔۔انور یوسف

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ روحانیت کا سفر۔۔۔ تحریر۔۔۔انور یوسف)اولیاء اللہ اور اہل اللہ کی نظر وسیع اور ہمہ گیر ہوتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے مومن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ کے نور کے ساتھ دیکھتے ہیں۔“امام ابو حنیفہ کے بارے میں آتا ہے جب کوئی وضو کر رہا ہو تاتو اس کے وضو کے بہتے پانی میں آپ کو گناہوں کی شکلیں نظر آجاتی تھیں کہ فلاں : گنا یہ حل کر جارہا ہے۔بہت سے کاموں اور اشیاء کے اثرات اس طرح مرتب ہوتے ہیں کہ بظاہر عام انسان کی عقل ماننے کو تیار نہیں ہوتی، جبکہ اللہ والے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ والدین کی خدمت، استادوں کا ادب، غریبوں کی مدد، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، اللہ والوں کی دعائیں، مظلوموں کی بددعائیں، حسد، بغض، غیبت، بہتان، نیکی کا حکم، برائی سے منع، دیانت، بد دیانتی، سچائی، جھوٹ، خیر خواہی …. اس طرح کی سینکڑوں چیزیں، کام اور اشیاء ہیں جن کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بظاہر ان میں کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ انسان صرف ظاہری جسم کا نام نہیں، بلکہ جسم اور روح کے مجموعے کا نام ہے۔ جب تک روح کا تعلق جسم کے ساتھ قائم رہتا ہے، اس وقت تک انسان ”انسان“ کہلاتا ہے۔ جب روح جسم سے نکل گئی تو پھر وہ انسان نہیں مردہ کہلاتا ہے۔ اس کو آپ یوں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انسان میں دو قسم کے جہاں پائے جاتے ہیں۔

جسم کا جہاں جسے ہم آنکھوں سے دیکھ کر ، ہاتھوں سے چھو کر محسوس کر لیتے ہیں۔ دوسرا باطنی جہاں ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں۔ اس باطنی دنیا میں “روح” آباد ہے۔ اسی پوشیدہ دنیا میں دل دھڑکتا ہے، خواہشیں جنم لیتی ہیں، امنگیں اور آرزوئیں پروان چڑھتی ہیں۔ اسی میں خوشی اور غم، محبت اورنفرت، ایثار اور بغض، کینہ و حسد جیسے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ جس طرح ظاہری جسم کبھی تندرست ہوتا ہے اور کبھی اسے مخطر ناک بیماریاں لگ جاتی ہیں، اسی طرح روح بھی کبھی تندرست ہوتی اور کبھی اس میں تکبر، غرور، خود غرضی، خود پسندی، حسد، بغض، عناد، غضب، غصه، شرک، نفاق، نخوت حب جاہ، حب دنیا، بخل، حرص اور غیبت جیسی مہلک ترین بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

جس طرح جسمانی اور فزیکل بیماریوں کے ڈاکٹر اور سرجن ہوتے ہیں۔

اسی طرح روحانی بیماریوں کے ڈاکٹر ہوتے ہیں، جنہیں اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کہا جاتا ہے۔ جس طرح ظاہری جسم کی بیماریوں کا ڈاکٹر سے علاج کروایا جاتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی کسی اللہ والے سے کروانا ضروری ہوتا ہے۔ انسان کی باطنی دنیا ظاہری دنیا کی بنیاد ہے۔ اسی پر انسان کا بگڑنا اور بنا موقوف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” خبر دارا جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے،

اگر و و درست رہے تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔انسان چاہے جتنا بھی ماڈرن ہو جائے، جتنا بھی ترقی یافتہ ہو جائے وہ روحانیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ روحانیت سے فرار ممکن نہیں۔ آپ غور سے دیکھیں اور باریک بینی سے جائزہ لیں۔ دنیائے عیسائیت سے تعلق رکھنے والا انسان ہو یا یہودیت سے۔ بدھ مت ہو یا آتش پرست، ہندومت ہو یا مسلمان۔ غرض کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان ہو، دنیا میں بسنے والے ہر بشر کو کسی نہ کسی قدم پر روحانیت کی ضرورت لازم محسوس ہوتی ہے۔ آپ ہی بتا ئیں دنیا کا واحد سپر پاور ملک امریکا کا صدر کیوں چرچ جاتا ہے…..؟ دنیوی اور مادی اعتبار سے اسے کس چیز کی کمی ہے …. ؟دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کا وزیر اعظم کیوں مندر جاتا ہے….؟ اسرائیل کا وزیر اعظم سینی گاگ کیوں جاتا ہے….؟ صدر آصف علی زرداری ایوان صدر میں بیٹھ کر پیر سے کیوں دم کرواتے تھے ….؟ کیا دم و درود زیادہ طاقتور ہے…..؟ یہ حقیقت ہے جن لوگوں نے روحانیت، مذہبیت کو دیس سے نکال دیا ہے، وہ اب پریشان ہیں۔ اگر ماذیت اور دولت ہی سب کچھ ہے تو مچھر دنیا کی سب سے بڑی گیس کمپنی کا مالک پاگل ہو کر نہ مرتا۔ گندم کا سب سے بڑا سٹے باز، مفلس، نادار اور غریب ہو کر دنیا سے نہ جاتا۔ نیو یارک اسٹاک ایکھینچے کا مالک جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ کر آہیں بھر بھر کے نہ مرتا۔ انسان کی فطرت ہے جب وہ پریشان ہو تا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ ماذیت سے تنگ لوگوں کو روحانیت ہی چاہے ہوتی ہے۔

ہم نے ایسے لوگوں کے سینکڑوں واقعات لکھے ہیں جن کے پاس دنیا کی ہر سہولت تھی، لیکن وہ اندرونی طور پر پریشان تھے، ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا تھے۔ جب انہوں نے روحانیت اپنائی تو انہیں قلبی اطمینان اور دماغی سکون حاصل ہوا۔ ہزاروں مریض ایسے تھے، جن کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، وہ زندگی سے مایوس اور ناامید ہو چکے تھے ، لیکن جب روحانی علاج کروایا تو مکمل شفایاب ہو گئے۔

آج دنیا کے تمام نیورو سرجن اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کو اپنا دماغ ٹھنڈار کھنا چاہیے، ٹینشن فری ہونا چاہیے، کیونکہ نوے فیصد پریشانیاں اور بیماریاں گرم دماغ اور ٹینشن کی مرہون منت ہوتی ہیں، جبکہ روحانیت کی ابتداہی ٹھنڈے دماغ سے ہوتی ہے۔ اللہ ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین سالک کے دماغ میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ مراقبہ ، موت کروا کر دنیا کی حیثیت پر کاہ کے برابر کروادی جاتی ہے۔ اس کے بعد مال آنے کی خوشی اور جانے کا غم نہیں رہتا۔

آج ہر انسان چوبیس گھنٹے جسمانی سکون، دماغی سکون، ابدی سکون، ہمہ جہتی سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ قلبی سکون اور جسمانی راحت کے لیے بیسیوں پاپڑ بیلتا ہے ، مگر دائمی سکون حاصل نہیں کر پاتا۔ خالق کائنات کا اعلان ہے سکون میری یاد اور میرے ذکر میں ہے۔“ سکون کا سر چشمہ اسلام ہے۔ ہمہ جہتی سکون کا مرکز اسلام کی زریں تعلیمات اور اسلامی تہذیب و ثقافت ہے۔ جسمانی، دماغی، ابدی اور ہمہ جہتی سکون صرف اور صرف اللہ کی ماننے اور محمد ﷺ کی مکمل اتباع میں ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اپریل 2015

Loading