Daily Roshni News

روحانی علوم کے ماہرین نے کلمہ طیبہ کے اندر چھ علوم کی نشاندہی فرمائی ہے

روحانی علوم کے ماہرین نے کلمہ طیبہ کے اندر چھ علوم کی نشاندہی فرمائی ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )روحانی علوم کے ماہرین نے کلمہ طیبہ کے اندر چھ علوم کی نشاندہی فرمائی ہے یعنی پہلا کلمہ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” علم شش یا علم ستہ پر مشتمل ہے اور علم کی ہر شکل اپنی لامتناہی وسعتوں کی حامل ہے اور اس کو  ہی روحانی علوم کے اندر بطور نصاب پڑھایا جاتا  ہے اور تمام مراقبہ جات، ذکر اذکار،  فکر افکار، تسبیحات اور ریاضت و مجاہدے انہی علوم ستہ کے ماخذ ہیں، انکی تفصیل یہ ہے

1۔  علم لا یا علم نفی

2۔ علم الہ یا علم معبودیت

3۔ علم  الا یا علم اثبات

4۔ علم اللہ یا علم الہیت

5۔ علم محمدیہ یاحقیقت محمدی

6۔ علم رسالت یا علم نزول و صعود

روحانی علوم کے سالک انہی علوم کے کسی نہ کسی حصے کو اپنے ارتکاز اور شغل میں متحرک رکھتے ہیں ، ان علوم ستہ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے

1۔ علم لا یا نفی کی رائج جہتوں میں اپنی ذات کی نفی،  موجودات کی نفی،  کائنات کی نفی شامل ہے اور اسی مشق کو مراقبہ فنا، مراقبہ زماں،  مراقبہ موت اور مراقبہ لاہوت بھی کہتے ہیں، کائنات کا تمام مٹریل ختم ہو جائے جس میں ہمارا جسم بھی شامل ہے تو ہمارے حواس میں صرف،  اسپیس،  خلاء،  فاصلہ یا زمان رہ جائے گا اسی زمان اور خلاء میں اپنے حواس کو مرکوز کرنے سے اللہ کی ذات و صفات کا ادراک ہوجاتا ہے اور سالک کے مشاہدے میں کل من علیھا فان، ویبقا وجہہ ربیکا ذوالجلال وال اکرام کا نظام  آجانا ہے، جب لا  کا ذکر  تجویز کیا  جاتا ہے تو ذکر کی شکل خود بخود ارتکاز کے ساتھ مراقبے میں تبدیل ہو جاتی ہے

2۔ علم معبودیت کے اندر سالک جب نفی یا فنا کے مقامات سے گزرتا ہے تو اس کے سامنے  اسکا اور اسکی زندگی کو بنانے والی روشنیاں،  انورات اور تجلیات کا انکشاف ہوتا ہے اور صفت الہ یا علم معبودیت سے  علم بقا کی حقیقت کا ادراک بھی سالک پر وارد ہونا شروع ہو جاتا اور اسکے مشاہدات میں فنا اور بقا کا نظام کھل کر سامنے آجاتا ہے اور اس کے اندر وہ عروج حاصل کرتا رہتا ہے

3۔ سالک کی ریاضت و مجاہدے اس کے سامنے علم فنا وبقا کے نظام کو چلانے والی صفت معبودیت یا علم الہ کا ادراک کرنے کے بعد اس نظام کے اندر اللہ تعالٰی کی لامتناہی وسعتوں اور صفات کا نزول اور اسکا اثبات ہوتا ہے وہ نہ صرف ان صفات کا عرفان حاصل کرتا ہے بلکہ ان کے منبع ومخزن سے بھی واقفیت حاصل کرتا ہے اور انکا استعمال کرنے کے قابل بھی ہوجاتا ہے علم لا،  الہ آور الا سے وہ ایسے مدارج میں داخل ہو جاتا جو کسی بندے کی معراج ہوتی ہے

4۔ علم اللہ کی پانچ صفات بیان کی گئی ہے، 1۔  ایک ہے،  2۔ بے نیاز ہے،  3۔ نہ کسی کا باپ ہے،  4۔ نہ کسی کا بیٹا ہے،  5۔ اس ایک جیسا دوسرا کوئی نہیں ،

روحانی سالک کے سامنے آنے والے مشاہدات کا منبع ومخزن اگر ان پانچ صفات سے گزر کر منکشف ہو رہا تو علم الہیت کے تقاضے پورے کر رہا ہے ورنہ شیطنت کے علاوہ کچھ نہیں،  علم لا،  الہ اور علم الا سے ہی اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کا عرفان اور اسکے نزول و صعود کی حقیقت کا ادراک مکمل ہوتا ہے

5۔” حمد” اللہ تعالٰی کی تعریف یا صفات کو کہتے ہیں اور “محمد” اللہ کی تمام صفات کے مجموعہ کو کہتے ہیں اللہ تعالٰی کی یہ ہی صفات کائنات کی تخلیق اور حرکت نزول و صعود کا سبب ہے،  اللہ تعالٰی کی ان تمام صفات کو آخری نبی الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تھا جس سے کائنات کی تخلیق کا مکمل ریکارڈ آشکار ہوا اور انسان عبدیت کے مرتبہ پر فائز ہوا یہ دریافت شدہ ریکارڈ یا صفات کا علم حقیقت محمدی کہلاتا ہے اور اس کے نزول کے پہلے مقام کو ” مقام محمود ” کہتے ہیں

6۔ اللہ کی صفات جب اسکی ذات سے ارسال ہوتی ہیں اور مقام محمود پر فائز بندہ انکو وصول کر کے آگے ترسیل کرتا ہے تو یہی صفات اس بندے کی ذات سے گزرتی ہیں تو اس کے علم کو علم رسالت کا نام دیا جاتا ہے،  علم الہیت یا اللہ تعالٰی کی تمام صفات مقام محمود سے گزرنے کے بعد علم رسالت میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور حجاب محمود،  حجاب،  کبریا،  حجاب عظمت کی لا متناہی وسعتوں،  بلندیوں، گہرائیوں میں عروج ونزول کے ساتھ متحرک و گردش کرتی ہوئی پوری کائنات کے اندر پھیل جاتی ہیں

کلمہ طیبہ کے اندر پوشیدہ علوم ستہ کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے روحانی علوم کے سالکین کو اس کے اندر مزید  تفکر کی دعوت دی جاتی ہیں

Loading