Daily Roshni News

زخم سے نکلتے خون کی پرواہ کیے بغیر زارون نے نور کے بتائے ہوئے

زخم سے نکلتے خون کی پرواہ کیے بغیر زارون نے نور کے بتائے ہوئے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )زخم سے نکلتے خون کی پرواہ کیے بغیر زارون نے نور کے بتائے ہوئے راستوں پہ گاڑی چلاتے آنے والے وقت کے لیے اپنے آپ کو مضبوط کیا۔

”رک جائیں زار یہ دیکھیں میرا گھر“،اُسے اپنے ہی دھیان میں ڈرائیو کرتا دیکھ کر نور نے خوشی سے باہر کی جانب اشارہ کیا تو زارون نے ہوش میں آتے بریک لگائی۔

”نور میری بات سنو…“،اُسے دروازہ کھول کر باہر نکلتا دیکھ کر اُس نے آواز دی۔

”جی کیا ہوا؟“اپنا ہاتھ روکتے اُس نے پلٹ کر زارون کی جانب دیکھا۔

”پلیز اپنا خیال رکھنا اور گھر والوں کو سب سچ سچ بتا دینا۔ میں یہیں ہوں اگر کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے بلا لینا“،اُس کے چہرے کی چمک دیکھ کر زارون نے اپنے دل میں اُٹھنے والے خدشات کے پیش نظر اُسے نصیحت کی۔ ”نہیں آپ جائیں آپ کے گھر والے بھی پریشان ہوں گے۔ میں خود ہی بتا دوں گی سب کو۔ میرے بابا بہت اچھے ہیں جب اُنہیں پتا چلے گا کہ اُن گندے آدمیوں نے مجھے ڈرایا تو دیکھیے گا کیسے اُن کی پٹائی کرتے ہیں “،اُس کی بات کو سُن کر نور نے ایک عزم کے ساتھ کہا اور گاڑی سے نکل کے گیٹ کے پاس جاتے بیل پہ ہاتھ رکھا تو زارون نے بھی گاڑی ایک سائیڈ پہ لگائی اور باہر نکل آیا۔

”زار میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ جائیں میں خود ہی بتا دوں گی“،اُسے اپنے قریب آتا دیکھ کر نور نے ایک بار پھر سے اُسے اپنی جانب سے مطمئن کیا۔

”نہیں، میں تمہارے گھر والوں کو سب بتا کر تمہیں اُن کے حوالے کر کہ جاؤں گا“،سنجیدگی سے کہتے زارون نے گیٹ کھلنے کی آواز پر پلٹ کر دیکھا۔

”خالہ آپ کب آئیں؟“سامنے کھڑی خاتون کے گلے لگتے نور نے چہکتے ہوئے پوچھا جو اُسے دیکھ کر ہکا بکا سی کھڑی رہ گئیں۔

”ماما کہاں ہیں؟ مجھے پتا وہ بہت پریشان ہوں گی“،اُن سے الگ ہوتے نور نے اپنی ہی دھن میں بولتے نائلہ بیگم کو آواز دی۔

”نور میری جان“،اس کی آواز پر رضا کے ساتھ ساتھ نائلہ بیگم بھی حیران وپریشان سی کمرے سے باہر آئیں اور بازؤ پھیلاتے اُسے گلے لگانا چاہا مگر ظہیر صاحب کو دیکھتے ہی رک گئیں جو اُن دونوں کے درمیان آکھڑے ہوئے تھے۔

”بابا..“آگے بڑھتے نور نے اُن کے سینے پہ سر رکھتے رونا شروع کر دیا۔

”بابا وہ آدمی بہت بُرے تھے اُنہوں نے اُس ڈرائیور انکل کو ماردیا اور زار کو بھی گولی ماری۔ وہ مجھے لے جانا چاہتے تھے مگر زار نے مجھے بچایا۔ وہ مجھے وہاں جنگل میں لے گئے۔ مجھے بہت ڈر لگا تھا میں نے آپ کو، ماما کو اتنا یاد کیا۔ مجھے پتا تھا آپ سب میری وجہ سے پریشان ہوں گے پر….“،بات ادھوری چھوڑتے اُس نے اُن کے سینے سے سر اُٹھاتے دوپٹے سے اپنی ناک صاف کی اور واپس بولنے لگی۔

”پر زار بےہوش ہوگئے اُن کو گولی لگی تھی نا اس لیے اور پھر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا کروں میں نے اللہ سے دعا کی تب ہی ایک انکل نے ہماری مدد کی وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے تھے“،بولتے بولتے نور نے ایک نظر اُن سب کے خاموش چہروں پہ ڈالی اور ظہیر صاحب سے الگ ہوتے نائلہ بیگم کی جانب بڑھی جو جہاں نور کو دیکھ خوش تھیں وہیں ظہیر صاحب کے چہرے کے سرد تاثرات کو دیکھ کر خوف زدہ بھی۔

”ماما آپ روئیں مت دیکھیں میں اب آگئی ہوں نا اور ٹھیک بھی ہوں“،اُن کی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو ہاتھ سے صاف کرتے نور نے اُنہیں تسلی دی جو اُسے اپنے ساتھ لگاتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں تھیں۔

”ماما پلیز نہ روئیں پھر مجھے بھی رونا آجائے گا“،اُن کے ساتھ لگے نور نے اپنی آنسوؤں کو آنکھوں کے بند توڑنے سے روکا اور رضا کا ہاتھ تھامتے اُسے اپنے قریب کیا جس کی آنکھوں میں عجیب سا خوف در آیا تھا۔

”بابا پلیز، ایسا مت کریں“،ظہیر صاحب کو جیب سے گن نکالتا دیکھ کر جہاں رضا نے نور کا ہاتھ چھوڑتے اُنہیں سنبھالا وہیں نائلہ بیگم سے الگ ہوتے نور نے پلٹ کر اُن کی جانب دیکھاجو رضا کو دھکا دے کر صوفے پہ گراتے گن کا رخ نور کی جانب کر چکے تھے۔

”میری عزت کا جنازہ نکالنے اور ساری رات کسی غیر مرد کے ساتھ باہر رہنے کے بعد تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں تمہیں معاف کر دوں گا؟ میں اُن بے غیرت باپوں میں سے نہیں جو بیٹی کی غلطی پر پردہ ڈالتے بے شرم بن جائیں“،دانت پیستے ظہیر صاحب نے فائر کیا جو زارون کے بروقت وہاں آنے سے نور کی بجائے اوپر ہوا میں چلتے چھت کے پار ہوگیا۔

                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”انکل پلیز میری بات سنیں، ایسے کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر بیٹی کو سزا سُنا دینا کہاں کا انصاف ہے؟“اپنے زخم کی پرواہ کیے بناء زارون نے پوری طاقت لگاتے اُن کے ہاتھ سے گن جھپٹی۔

”تم ہوتے کون ہو مجھے یہ سبق پڑھنے والے اور تمہاری جراءت کیسے ہوئی ہمارے گھر کے معاملے میں بولنے کی“،اُس کو گریبان سے پکڑتے ظہیر صاحب نے غصے کے سبب چیختے ہوئے اُسے جھنجھوڑا۔

”پلیز میری بات تحمل سے سُن لیں۔ میں زارون ہوں اور میں ہی نور کے ساتھ تھا“،اُنہیں تیش میں دیکھ کر زارون نے حتی الامکان اپنے اعصاب کو نارمل رکھتے تعارف کروایا جس پر ظہیر صاحب مزید آگ بگولہ ہو چکے تھے۔

”تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں قدم رکھنے کی“،اُس کی گردن کو اپنے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں لیتے ظہیر صاحب کی آنکھوں میں خون اُتر چکا تھا۔

”بابا چھوڑیں کیا کر رہے ہیں آپ“،رضا کے ساتھ ساتھ عدیل(جو ابھی ابھی گھر آیا تھا) نے بھی آگے بڑھتے زارون کو اُن کی گرفت سے آزاد کیا۔

”میں ان دونوں کو جان سے ماردوں گا۔ میری عزت کو نیلام کرتے میرے ہی سامنے کھڑے ہو کر جھوٹی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ نور تم مر کیوں نہیں گئیں ایسا کام کرنے سے پہلے؟ کیا کمی تھی میری تربیت میں جو تم نے ایسا قدم اُٹھایا؟“نبیلہ بیگم کی باتوں اور رابعہ کے گھر نہ ہونے کی بات نے ظہیر صاحب کے دماغ پہ ایسا پردہ ڈالا کے اُنہیں صیح اور غلط کی پہچان تک بھول گئی۔

”با۔۔با می۔۔ں س۔۔چ بو۔۔ل ر۔۔ہی ہوں“،اُن کے منہ سے اپنے بارے میں ایسی باتیں سُن کر نور کی آواز اُس کے گلے میں ہی کہیں دب گئی تھی۔

”انکل پلیز آپ سکون سے میری بات سُن لیں آپ کی ساری غلط فہمی دور ہو جائے گی“،زارون نے پھرسے آگے بڑھتے اُنہیں صفائی دینا چاہی۔

“مجھے کچھ نہیں سننا“،ہاتھ اُٹھاتے ظہیر صاحب نے اُسے آگے بڑھنے سے روکا۔

”نور بے گناہ ہے اور یہ جیسی پاکیزہ گھر سے گئی تھی ویسے ہی لوٹی ہے اس لیے اس پہ نہ صحیح اپنی تربیت پہ ہی یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی آپ کا سر کبھی نہیں جھکا سکتی“،اُن کے روکنے کے باوجود بھی زارون نے آگے بڑھتے اُنہیں سمجھنا چاہا۔

”پاکیزہ…؟ بیٹیاں کانچ کی طرح نازک ہوتی ہیں اور اُن کی عزت کانچ سے بھی زیادہ نازک اور بیٹی چند پل دیر سے آئے تو لوگ تب باتیں بنانے سے باز نہیں آتے اور یہاں تو پوری رات باہر گزاری ہے وہ بھی ایک مرد….“،نفرت سے اُس کی جانب دیکھتے ظہیر صاحب نے اپنی بات ادھوری چھوڑی جو نور کے اعصاب پر کسی ہتھوڑے کی مانند لگی تھی۔

”میں نے آپ سے کہا نا کہ آپ کی بیٹی بے قصور ہے سب کچھ ایک پلان کے تحت اُس کے ساتھ ہوا اگر میں اُن لوگوں سے اسے نہ بچاتا تو پتا نہیں اس کے ساتھ اب تک کیا کچھ ہو چکا ہوتا اور رہی بات پوری رات کی تو مجھے احساس ہے آپ کی تکلیف کا۔ بیٹی کا یوں غائب ہو جانا ماں باپ کے دل میں کئی خدشات پیدا کر دیتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کو صفائی کا ایک موقع بھی نہ دیا جائے اور اپنی عزت اور غیرت کے نام پر اُن کے بے قصور ہونے پر بھی اُن کو سزا سنا دی جائے۔ پلیز انکل آپ جیسا ثبوت جیسی قسم چاہتے ہیں میں اُٹھانے کے لیے تیار ہوں مگر نور کو سزا مت دیں اور ٹھنڈا دماغ سے میری بات سنیں آپ کو خود ہی سمجھ آجائے گی اس سارے معاملے میں آپ کی بیٹی کا کوئی قصور نہیں ہے“،ظہیر صاحب کو خاموش دیکھ کر زارون نے اپنی بات جاری رکھی۔

”آپ چاہیں تو میرے ساتھ چلیں میں آپ کو ڈرائیور کی لاش دیکھا سکتا ہوں اور اُن لوگوں سے بھی ملوا سکتا ہوں جہنوں نے ہماری مدد کی“،سرخ ہوتی پٹی کو ایک نظر دیکھتے زارون نے اپنے درد کی پرواہ کیے بناء ہر بات دلیل کے ساتھ ظہیر صاحب کے سامنے رکھی۔

”مجھے کچھ نہیں جاننا بس میں آج کے بعد اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا اور نہ ہی تمہاری، اس لیے اسے ساتھ لو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ“،اپنا فیصلہ سناتے اُنہوں نے ایک سخت نظر نور پہ ڈالی جو بے یقینی کی سی کیفیت میں آنکھوں میں آنسو لیے کھڑی تھی۔

”بابا،میں نے کچھ نہیں کیا اور آپ مجھے مار دیں مگر میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی“،اُن کو جاتا دیکھ کر نور نے اُن کے سامنے آتے راستہ روکا۔

”دل تو یہی تھا کہ مار کہ یہی زندہ دفن کردوں مگر جان سے پیاری اولاد کو موت دینا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا اس لیے خدا کے لیے یہاں سے چلی جاؤ اور اگرہماری زرا سی بھی پرواہ ہے تو کبھی لوٹ کر مت آنا“،اُس کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لے کر زور سے دباتے ظہیر صاحب نے نفرت سے کہتے اُسے جھٹکا تو نور کی تمام تر ہمتیں جواب دے گئیں۔ ”ٹھیک ہے اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو پلیز اپنے سامنے اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ پڑھواں دیں تاکہ دل نہ صحیح پر آپ کا ضمیر ہی مطمئن ہو کہ آپ کی بیٹی ایک پاکیزہ رشتے میں میرے ساتھ بندھی ہے اور ہوسکتا ہے کل کو آپ کی سوچ سے انا اور غیرت کا پردہ ہٹے تو آپ کو سب صاف دیکھائی دینے لگے تب جا کر آپ کو احساس ہو کہ بیٹیاں اتنی بھی بے اعتبار نہیں ہوتی کہ اُن کی ایک غلطی کے بدلے اُن کو اپنی ذات سے اور گھر سے بے دخل کر دیا جائے“،اُنہیں کمرے کی جانب جاتا دیکھ کر زارون نے آگے بڑھتے روکا۔ ”نکاح؟ واہ بھئی تم لوگ نکاح کے بغیر ہی ساری رات ایک دوسرے کے ساتھ گزار آئے ہو؟“منہ پہ ہاتھ رکھتے نبیلہ بیگم نے حیرت سے ظہیر صاحب کے غصے کو مزید ہوا دی۔

”خالہ بس کریں آپ کو شرم آنی چاہیے ایسی فضول بات کرتے ہوئے اور اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دے سکتیں تو ہمارے زخموں پہ نمک چھڑکنے کا کام بھی مت کریں“،اُن کی بات سنتے رضا کی برداشت جواب دے گئی اس لیے کوئی بھی لحاظ رکھے بغیر اُس نے نبیلہ بیگم کوچپ کروایا۔

”زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے بہن نے پہلے کم بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے جو تم بھی اپنی بد لحاظی دیکھا کر ماں باپ کو مزید شرمندہ کر رہے ہو اور رہی بات شرم کی تو بیٹا جی شرم تمہاری بہن کو آنی چاہیے جس نے اب تک پتا نہیں کس کس کے ساتھ منہ کالا….“

”بس باجی اس کے آگے اور کچھ مت کہیے گا ورنہ میں بھول جاؤں گی کہ آپ مجھ سے بڑی ہیں“،اُنہیں تڑخ کر بولتے دیکھ کر نائلہ بیگم نے اب کی بار ظہیر صاحب کی زبان پر لگے تالے کو وجہ سے خود ہی ہمت کرتے نبیلہ بیگم کا بازؤ پکڑا اور اُنہیں وہاں سے باہر نکال دیا۔

”آج کے بعد میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں آپ میرے لیے مر گئیں اور میں آپ کے لیے اس لیے دوبارہ پلٹ کر یہاں آنے کی کوشش مت کرئیے گا“،ہاتھ جوڑتے نائلہ بیگم نے اُن کی بڑھتی تہمتوں سے تنگ آتے کہا اور عدیل کے باہر نکلتے ہیں دروازہ بند کر کے اندر آگئیں جہاں ظہیر صاحب زارون کو اگلے ایک گھنٹے میں نکاح کا کہہ کے کمرے میں جا چکے تھے۔

Loading