ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب ۔زنا ایک قرض ہے، یہ حدیث تو نہیں ہے لیکن یہ قول امام شافعی کی طرف منسوب دیوان شافعی میں موجود ہے۔ایک حدیث پاک ہے(جس کی صحت پر علماء کو کلام ہے): جس نے زنا کیا ،اس سے زنا کیا جائے گا۔ مزید اس پر کچھ واقعات بھی علمائے کرام نے اپنی کتب میں لکھے ہیں۔ایک شخص نے جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کی اجازت مانگی تو آپ علیہ السلام نے بطور تنبیہ فرمایا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہوں کہ یہ قبیح فعل تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہو۔ لیکن ان تمام اقوال سے یہ لازم نہیں آتا کہ زانی کے گھر والوں سے بھی زناہو کر رہے گا،بلکہ یہ ایک تنبیہ ہے کہ زانی شخص بدکاری میں اس قدر مگن ہوتا ہے کہ اسے اپنے گھر والوں کی تربیت کی فکر نہیں ہوتی اور اس کی یہ حرکات عوام میں مشہور ہونے کے ساتھ گھر والوں کو بھی پتہ چل جاتی ہیں اور ان کے کردار پر بھی یہ چیز اثر انداز ہوتی ہے اور وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر اس کی بیوی،بہن بیٹی سے بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو یہ لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کرتا رہا ہے۔
دیوان شافعی میں ہے
”عفوا تعف نساوٴکم في المحرم
وتجنبوا ما لا یلیق۔۔۔۔۔۔ بمسلم
إن الزنا دین فإن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أقرضتہ
کان الوفا من أھل بیتک“
ترجمہ: پاکدامن رہو رہو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی، جو باتیں مسلمان کو زیب نہیں دیتیں ان سے کنارہ کش رہو، بلاشبہ زنا ایک قرض ہے، اگر تم اس قرض میں مبتلا ہوئے ہو، تو یاد رکھو! اس قرض کی ادائیگی بھی تمہارے گھر ہی سے ہوگی۔(دیوان شافعی مترجم ، صفحہ 214، مطبوعہ ھند)
غذا الالباب فی شرح منظومة الآداب میں ہے
”من یزن فی قوم بالفی درھم
فی اھله یزنی بربع الدراھم
ان الزنا دین اذا استقرضته
کان الوفا من اھل بیتک فاعلم“
ترجمہ:جو کسی سے دو درہم کے عوض زنا کرے گا، اس کے اہل میں سے چوتھائی درہم کے عوض زنا کیا جائے گا ۔بے شک زنا ایک قرض ہے اگر تو اسے قرض لے گا ،تو جان لے اس کی ادائیگی تیرے گھر والے ادا کریں گے۔(غذا الالباب فی شرح منظومة الآداب، جلد 2 ، صفحہ 440، موسسہ قرطبہ مصر)
کنزالعمال میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” من زنی زنی به“
ترجمہ:جو زنا کرے گا اس سے بھی زنا کیا جائے گا۔(کنزالعمال ، جلد 5 صفحہ 456، موسسة الرسالة بیروت)
الزواجر میں ہے:
”أن الزنا له ثمرات قبيحة: منها أنه يورد النار والعذاب الشديد، وأنه يورث الفقر وأنه يؤخذ بمثله من ذرية الزاني، ولما قيل لبعض الملوك ذلك أراد تجربته بابنة له وكانت غاية في الجمال أنزلها مع امرأة فقيرة وأمرها أن لا تمنع أحدا أراد التعرض لها بأي شيء شاء، ثم أمرها بكشف وجهها وأنها تطوف بها في الأسواق فامتثلت، فما مرت بها على أحد إلا وأطرق رأسه عنها حياء وخجلا، فلما طافت بها المدينة كلها ولم يمد أحد نظره إليها حتى قربت بها من دار الملك لتريد الدخول بها فأمسكها إنسان وقبلها ثم ذهب عنها، فأدخلتها على الملك فسألها عما وقع فذكرت له القصة فسجد لله شكرا وقال: الحمد لله ما وقع مني في عمري قط إلا قبلة لامرأة وقد قوصصت بها“
ترجمہ: بیشک زنا کے بہت برے نتائج ہوتے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جنہم میں لے جانے کا سبب بنتا ہے، اور فقر کا سبب بنتا ہے، اور اسی طرح جیسا اس نے کیا ہے اس کی ذریت (اولاد سے ) سے لیا جاتا ہے، (یعنی جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے) ، جب یہ بات کسی ایک بادشاہ کے سامنے کی گئی ، تو اس نے اس کے تجربہ کا اردہ اپنے بیٹی پر کیا، جو کہ نہایت حسین وجمیل تھی، اس بادشاہ نے اسے ایک فقیر عورت کے ساتھ کردیا، اور اسے حکم کیا کہ وہ کسی کو منع نہ کرے جو اس سے کسی بھی قسم کا تعرض کرنا چاہ رہا ہو ، پھر اسے حکم دیا کہ وہ اپنے چہرے کو کھول دے، اور اس طرح بازاروں میں چکر لگائے، پس اس لڑکی نے کہا مانا،وہ اس طرح جس پر بھی گزرتی وہ شرم وحیا کے مارےاپنا سراس سے پھیر لیتا، پھر جب اس نے اس طرح پورے شہر کا چکر لگا لیا ، اور کسی نے اپنی نظر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا، تو وہ فقیر عورت اسے اسی حال میں بادشاہ کے گھر کے قریب لائی ،تا کہ وہ اسے گھر میں داخل کرسکے ، تو اسی وقت ایک انسان نے اسے روکا اور اس کا بوسہ لیا، پھر وہاں سے چلا گیا، پھر اس فقیرنی نے اس لڑکی کو بادشاہ پر حاضر کردیا، بادشاہ نے اس سے پیش آمدہ واقعہ کا سوال کیا ، پس اس نے وہ قصہ ذکر کردیا، بادشاہ نے اللہ کے لیے سجدہ شکر اد اکیا، اور کہا: تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں ، نہیں واقع ہوا تھا مجھ سے عمر بھر فقط یہی ایک بوسہ ایک عورت کا ، بیشک مجھ سے اسی کا قصاص لیا گیا ہے۔(الزواجر عن اقتراف الكبائر لابن حجر الهيتمي، الكبيرة الثامنة والخمسون بعد الثلاثمـائة الزنا، جلد 2، صفحہ 266،دار الفكر بیروت)
تفسیر روح البیان میں ہے
”حکی انه کان رجل سقاء بمدینة بخاری یحمل الماء الی دار صائغ مدة ثلاثین سنة وکان لذلک الصائغ زوجة صالحة فى نهاية الحسن والبها فجاء السقاء علی عادته یوما اخذ بیدھا وعصرھا فلما جاء زوجھا من السوق قالت مافعلت الیوم خلاف رضی الله تعالیٰ قال ماصنعت فالحت فقال جاءت امراة الی دکانی وکان عندی سوار فوضعته فی ساعدھا فاعجبنی بیاض یدھا فعصرتھا فقال الله اکبر ھذہ حکمة خیانة السقاء الیوم فقال الصائغ ایتھا المراة اتی تبت فاجعلینی فی حل فلما کان من الغد جاء السقاء وتاب قال یاصاحبة المنزل اجعلینی فی حل فان الشیطان قد اضلنی فقالت امض فان الخطا لم یکن الا من الشیخ الذی فی الدکان فاقتص الله منه فی الدنیا“
ترجمہ: شہر بخاری میں ایک شخص تیس سال تک ایک سنار کے گھر پانی بھرتا رہا اس سنار کی ایک صالحہ بیوی تھی جو انتہائی خوبصورت اور مانوس کن تھی ایک دن حسب معمول پانی والا آیا تو اس نے عورت کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے دبایا جب اس کا شوہر بازار سے آیا تو عورت نے پوچھا کہ آج تم نے اللہ عزوجل کی کونسی نافرمانی کی ہے ؟ شوہر نے کہا کوئی نافرمانی نہیں کی جب عورت نے اصرار کیا تو شوہر نے بتایا کہ آج ایک عورت میری دکان پر آئی اس کے پاس ایک کنگن تھا جو اس نے ہاتھ سے اتار کر رکھا میں نے اس کے ہاتھ کی سفیدی دیکھ کر تعجب کیا اور اسے دبالیا سنار کی بیوی نے کہا اللہ اکبر یہی حکمت تھی پانی والے کے آج کی خیانت کی ۔سنار نے کہا تو جو کوئی عورت ہے میں اس سے توبہ کرتا ہوں مجھے اس گناہ کی معافی دیدے۔ جب اگلا دن آیا تو پانی والا آیا اور اس نے توبہ کی اور کہا اے گھر کے مالک مجھے معاف کردے بےشک شیطان نے مجھے گمراہ کردیا۔ عورت نے کہا چلا جا بےشک یہ خطا میرے شوہر سے ہوئی جس کا اللہ عزوجل نے اسے دنیا میں بدلا دے دیا۔(تفسیر روح البیان ، جلد 4 ، صفحہ 150، دار الفکر بیروت)
مسند احمد میں ہے
”عن أبي أمامة قال: إن فتى شابا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ائذن لي بالزنا، فأقبل القوم عليه فزجروه وقالوا: مه. مه. فقال: ” ادنه، فدنا منه قريبا “. قال: فجلس قال: ” أتحبه لأمك؟ ” قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: ” ولا الناس يحبونه لأمهاتهم “. قال: ” أفتحبه لابنتك؟ ” قال: لا. والله يا رسول الله جعلني الله فداءك قال: “ولا الناس يحبونه لبناتهم”. قال: “أفتحبه لأختك؟” قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: “ولا الناس يحبونه لأخواتهم”. قال: “أفتحبه لعمتك؟” قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: “ولا الناس يحبونه لعماتهم”. قال: لا. “أفتحبه لخالتك؟” قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: “ولا الناس يحبونه لخالاتهم”. قال: فوضع يده عليه وقال: “اللهم اغفر ذنبه وطهر قلبه، وحصن فرجه” قال فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء“
ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے، لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(اسے) فرمایا: (میرے) قریب آجاؤ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔(مسند أحمد جلد 36 ، صفحہ 545، حدیث 22211 ،مؤسسة الرسالة)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
29صفر المضفر 1446ھ04 ستمبر 2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمدانس رضا قادری
◈☆◈ ───
منجانب
الرضا قرآن وفقہ اکیڈمی(آن لائن)